شہری اور دیہی زند گی میں زمین و آسمان کا فرق ہے تا ہم ایک بات دونوں میں مشترک ہے، بازار کی معیشت اور مصروف زند گی نے دونوں جگہ اپنا سکہ جما یا ہوا ہے ہر گھر پر روپے پیسے کا سایہ ہے اور ہر کنبے پر دو چار پیسے جو ڑ نے کا سودا سما یا ہے یہ ایک سما جی، معا شی اور معاشرتی مسئلہ ہے جس کا سب کو سامنا ہے جس طرح پرندے انڈے دیتے ہیں ان کو سیتے ہیں، چوزے نکا لتے ہیں چوزوں کی سیوا کر تے ہیں ادھر ادھر سے کیڑے مکو ڑے چُن کر لا تے ہیں چوزوں کو کھلاتے ہیں ان کی پرورش کا بو جھ اٹھا تے ہیں جب چوزوں کے پر نکل آتے ہیں تو وہ اڑا ن بھرتے ہیں پہلے نز دیکی درختوں کی شا خوں پر بیٹھتے ہیں، چہچہا تے ہیں پھر رفتہ رفتہ دور ہو تے جاتے ہیں یہاں تک ان کو ماں کے گھونسلے کی خبر بھی نہیں ہو تی بازار کی معیشت نے آج کل کے دور میں انسا نوں کو بھی پرندوں کی طرح رزق کی تلا ش میں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ایک ہی گاؤں، ایک ہی محلے کے لو گ ایک دوسرے کے لئے انجا ن بن چکے ہیں، ساتھ ساتھ دو بڑی کوٹھیاں با ہر سے نظر آتی ہیں اندر جا کر دیکھیں تو دونوں کو ٹھیوں میں الگ الگ پتھر رکھے ہوئے ہیں پتھر بہت قیمتی ہیں مگر ایک دوسرے کی دکھ درد نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
ایک دوسرے کی خو شیوں میں شریک نہیں ہو سکتے، بھائی بہن اور رشتہ دار آکر پرسہ دیتے ہیں پڑوس میں واقع کوٹھی والوں کو پتہ بھی نہیں ہو تا۔ گاؤں میں جو حالت ہے وہ بھی اس سے ملتی جلتی ہے‘ اگر ایک گھر میں فوتگی ہو تی ہے تو پتہ لگتا ہے کہ گھر میں ایک بوڑھا باپ تھا ایک بوڑھی اماں رہتی تھی ان میں سے ایک وفات پا گیا، بچے، پو تے، نواسے، نو اسیاں شہروں میں روز گار پر ہیں۔ ٹیلیفون پر واقعے کی اطلا ع دی گئی ہے وہ آکر فاتحہ پڑھیں گے۔ قبر پر جا کر حا ضری لگا ئینگے اگلے روز کہیں گے مختصر چھٹی تھی جو ختم ہو گئی ما ں باپ میں سے جو رونے کیلئے زندہ بچا ہے اس کو تسلی دیتے ہیں کہ فکر نہ کرو، ہم ہر ما ہ ایزی پیسہ کے ذریعے خرچ کے پیسے بھیجیں گے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ان کی نظر میں محبت، اپنا ئیت، رشتہ نا طہ کوئی معنی نہیں رکھتا، بوڑھوں کو خدمت کی ضرورت نہیں ہو تی، گپ شپ اور گفتگو میں دل بہلا نے کی حاجت نہیں ہو تی، پیسہ مل جا ئے تو یہ سب کچھ ہے‘حقیقت میں ایسا نہیں۔
بازار کی معیشت کا دارو مدار ہی روپے اور پیسے پر ہے، آج کا سب سے اہم مو ضوع محبت اور خد مت نہیں، ڈالر کا ریٹ ہے، تیل اور گیس کی قیمت ہے، بجلی کے بل میں آنیوالے 10گنا سر چارج ہے اس لئے کنبے کے سارے افراد پیسہ کما نے میں لگے ہوئے ہیں، یہ 1979کا ذکر ہے سویت یو نین ٹوٹنے اور بکھرنے سے 10سال پہلے پشاور کے محقق ڈاکٹر محمد انور خان نے ما سکو، اور تاشقند کا سر کا ری دورہ کیا، دورہ مختصر تھا مگر اس دورے میں وہ تا شقند کے اندر پشاور سے تجا رت کی غرض سے جا کر 1919سے پہلے وہاں بس جا نیوالے ہند کوان خاندانوں کے چند لو گوں سے ملا۔وہاں پوزیشن یہ تھی کہ صبح سب کا م پر جا تے تھے شام کو گھر آتے ہوئے سر کا ری سٹور سے آٹا، گھی، دال وغیرہ لیکر آنا ہو تا تھا جہاں صرف ایک دن کا راشن ملتا تھا، اُسے پکا کر کھا تے صبح واپس کام پر جا تے یہ اُن کی زند گی تھی ایک دوسرے کے غم یا خو شی میں شریک ہو نے کی فرصت نہیں تھی، ڈاکٹر محمد انور خان نے ایک سیمینار میں یہ رودا سنا ئی تو ہم حیران رہ گئے اب یہ ہما رے اپنے شہروں اور ددیہی علا قوں میں روز کا معمول ہے‘ انسان سے مشین بننے کا سفر دلجمعی کے ساتھ طے کر رہے ہیں، بہت ہوشیا ر اور بیحد ذہین لوگ یہ سفر طے کر چکے ہیں‘دادی اماں کی کہا نیوں کے مقابلے میں ٹام اینڈ جیری اور ڈوری مون نے بچوں کو بہلا نا شروع کیا ہے۔