یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”معاشی آزادی کے بغیر آزادی کا تصور ناممکن ہے (اور یہی وجہ ہے کہ) بطور وزیراعظم پاکستان خلوص دل سے ایک مرتبہ پھر ”میثاق ِمعیشت“ کی پیش کش کررہا ہوں (جو) وقت کا تقاضا (بھی) ہے کہ اب ہم بحیثیت قوم درست سمت میں اپنا سفر جاری رکھیں۔“ چودہ اگست کے موقع پر قوم سے اِس اہم ترین خطاب میں اُن کہنا تھا کہ ”تاریخ گواہ ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے لہو سے لکھی گئی داستان کا عنوان پاکستان ہے۔“ اُنہوں نے قومی دن منانے کے اصل مقاصد کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان کو ایسا نہیں بنایا جسے دیکھ کر ہمارا دل خود یہ گواہی دے کہ قائد اور لاکھوں شہدا کی روحیں مطمئن اور آسودہ ہیں۔“وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ”اسی لئے یوم آزادی کے موقع پر میرا دل مسرور بھی ہے اور بے چین بھی‘ آج ہمیں کھلے دل سے اس سچائی کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم نئی نسل کو وہ کچھ نہیں دے سکے جس کے وہ اصل میں حقدار ہیں‘ جس سے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے اور جس کے پاس رہنمائی کیلئے قائداعظمؒ کا عمل اور علامہ اقبالؒ کی فکر موجود ہے پھر وہ قوم کیوں منزل کی تلاش میں بھٹک رہی ہے! ہم بحرانوں سے کیوں دوچار ہوئے‘ جن میں سب سے بڑھ کر معاشی بحران ہے۔“
وزیراعظم نے پاکستان کو درپیش اور بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی سیاسی اتحادواتفاق اور قومی وحدت کی اہمیت کو اُجاگر کیا‘جہاں تک معیشت کی بحالی کا تعلق ہے تو اسکے لئے یقینا تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کراہم فیصلے اتفاق رائے سے کرنے کی ضرورت ہے‘ اپنے باہمی سیاسی اختلافات کو بھلا کر اب ایک دوسرے کیساتھ مکالمے کی ضرورت ہے‘یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی روز سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کرنے کیلئے سیاسی قائدین کوئی لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں‘ صدر مملکت کی طرف سے مصالحتی کوششوں کا حصہ بننے کا اشارہ دینا ایک مثبت پیش رفت ہے‘پاکستان کو معاشی‘ سیاسی اور امن وامان کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے جبکہ وقت تیزی کیساتھ ہاتھ سے نکل رہا ہے‘ دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ بھی تشویش ناک امر ہے‘ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے بھی کوئی خاص مثبت اثرات سامنے نہیں آئے حالانکہ اقتدار میں آنے سے قبل یعنی پورے ایک سال پہلے آج ہی کے دن (پندرہ اگست) طالبان نے افغان حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔
دوسری طرف پاکستان کی طرف سے افغانستان کو مشکل حالات میں امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ دنوں جب وہاں پر تباہ کن زلزلہ آیا تو سب سے پہلے پاکستان نے پڑوسی ہونے کا حق ادا کیا اور پہلے ہی مرحلے میں مدد کرنے پہنچ گیا۔اس کیساتھ ساتھ افغانستان میں غذائی قلت کے مسئلے کو بھی پاکستان نے حل کرنے کیلئے بھر پور امداد فراہم کی اور ایسے حالات میں کہ بین الاقوامی سطح پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا، پاکستان نے بڑے پیمانے پر غذائی اشیاء افغانستان بھیج دیں‘ قبائلی اضلاع میں حال ہی میں جو بد امنی کے واقعات پیش آئے ہیں اس صورتحال کے تناظر میں پاکستانی قوم خصوصا ًقومی قیادت کو غورو فکر اور اتحادواتفاق کی ضرورت ہے‘ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں عدم برداشت پر مبنی روئیوں سے ملک و قوم کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا‘ امن وامان کے خراب ہوتے حالات کا فائدہ اُٹھانے کی بھارت بھرپور کوشش کرے گا کیونکہ وہ تاک میں رہتے ہوئے پاکستان کے اندرونی حالات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ دشمن پاکستان میں امن وامان کو لاحق خطرات اور کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اِن سنگین و خستہ حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے دور اندیشی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ موجود ہ مشکل حالات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکے او ر ملک کو ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔