اپنا فالٹ کہاں ملتا ہے۔دوسروں کے فالٹ تو ہم دیکھ لیتے ہیں۔مگر اپنا فالٹ دیکھنا بہت مشکل ہے۔پھر اس کا علاج کرنا اتنا ہی اوکھا ہے۔ایک فرد ہو ایک قوم ہو اپنا فالٹ کسی کو نظر نہیں آتا۔ اس وقت کہ اپنا فالٹ ڈھونڈیں آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔کیونکہ ہم اپنا فالٹ درست کرنا ہی نہیں چاہتے۔ہر کوئی دوسرے کے فالٹ کو ڈھونڈنے میں مصروف ہے اور اسے ہی اصل کام سمجھ کر سارا وقت اسی میں لگا رہتا ہے۔ اور پھر اگر بد قسمتی سے کسی کا فالٹ نظر آجائے تو پھر اس کو بڑ ا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔یہ ہم میں جو ہزار ہا معاشرتی کمزوریاں ہیں اور ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی اپنی کمزوری پر نظر رکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، دوسروں سے نظر ہٹے تو پھر اپنے آپ پر نظر ڈلانے کی فرصت ملے گی۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرے پہلے سدھر جائیں۔
یہ ہم نے ہر اچھا کام دوسروں پر چھوڑ رکھا ہے اسلئے تو شہر،گلی محلے میں گندگی کے ڈھیر لگتے جار ہے ہیں۔ سڑک پر آجائیں تو خواہش ہوتی ہے کہ سب ٹریفک قواعد کی پابندی کریں۔ مگر اپنے بارے میں کیا خیال ہے ……اب ایک اور فالٹ کا تذکرہ ہوجائے جس سے ہم روز متاثر ہوتے ہیں اور یہ فالٹ ڈھونڈنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔پھر اگر باغ کا راکھا ہی آسمانی بجلی کے ساتھ ملا ہو تو پھر رہا سہا فالٹ بھی نظر آنا گویا نابینا کو پہلے بینائی دلوانے والی بات ہوگی۔علاقے میں صبح اپنے وقت کے مطابق بجلی گیارہ بجے گئی۔مگر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
اگر فالٹ ہوتا تو روزانہ کی طرح عین گیارہ بجے جب بجلی جانے کا وقت تھا اس وقت ہی کیوں پیدا ہوگیا۔پھر ایسا کون سا فالٹ تھا جو پاکستانی معیاری وقت کے مطابق رات نو بجے جا کر ملا۔پہلے ملا پھر اس کو ٹھیک کیا گیا اور جا کر تب بجلی کی کرن نمودار ہوئی۔ سارا دن لوگ جیسے جھلس گئے۔اب شہریوں بیچاروں کو بجلی کے کام کی کہا ں سمجھ۔اول تو وہ کیا جانیں فالٹ کسے کہتے ہیں او رپھروہ بھی بجلی کا فالٹ ہو۔ جو شہری اس کوٹھیک تو کیا ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرے تو اس فالٹ کے ساتھ اپنی زندگی سے ڈیفالٹ کرکے مزید اوپر جائے گا۔یہ کیسا فالٹ ہے کہ آئے دن برپا ہوتا ہے۔