اچھے رول ماڈلز 

یہ بات غلط ہے کہ اس ملک میں دیانتدار سول افسروں یا سیاست دانوں کا ہمیشہ قحط الرجال رہاہے ہر دور میں ایسے سول سرونٹس اور سیاست دان بھی پیداہوتے رہے ہیں کہ جنہوں نے مالی دیانتداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ سیّد فریداللہ شاہ نامی ایک سول سرونٹ اس ملک کے ایک سینئر افسر تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان نیا نیا بنا تھا اس وقت کے صوبہ سرحد میں وزیر اعلیٰ کے علا وہ پانچ صوبائی وزیر تھے سرکاری گاڑیوں کے پول میں صرف پانچ گاڑیاں تھیں ان میں ایک تو وزیر اعلیٰ کے زیر استعمال تھی۔اب وزیر پانچ تھے اور باقی ماندہ گاڑیاں چار۔ صوبے کی مالی حالت کمزور تھی چنانچہ صوبائی کابینہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ بجائے اس کے کہ ایک نئی گاڑی خریدی جائے۔ پانچ وزیر اپنے دوروں کو اس طرح مرتب کریں کہ باری باری گاڑیاں استعمال کریں۔ چنانچہ پورے ایک سال تک اسی طریقہ کار کو اپنایا گیا اسی طرح غلام اسحاق خان سینٹ کے چیئرمین تھے۔ایک دن ان کے فرزند نے ان کے سیکرٹری سے اسلام آ باد کے بلیو ایریا جانے کیلئے گاڑی طلب کی جب سیکرٹری نے غلام اسحاق خان سے اس کی اجازت طلب کی تو انہوں نے یہ کہہ کر گاڑی دینے انکار کر دیا کہ صاحبزادے سے کہو کہ وہ ٹیکسی میں چلا جائے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جب راولپنڈی میں گولی لگنے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں نے ان کے زخم تک پہنچنے کیلئے ان کی قمیض اتاری تو قمیض کے نیچے انہوں نے جو بنیان پہن رکھی تھی وہ پھٹی ہوئی تھی ان کا اپنا کوئی گھر نہ تھا اور نہ کوئی ذریعہ آ مد نی، چنانچہ حکومت نے ان کی اہلیہ کو غیر ممالک میں سفیر تعینات کیا تاکہ ان کے نان نفقہ اور رہائش کا اہتمام ہو سکے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو ان کی اہلیہ ان کی منت سماجت کرتی تھیں کہ آپ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو گھر الاٹ کروارہے ہیں ایک گھر اپنے لئے بھی الاٹ کروا لیں تو وہ یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کر دیتے کہ جب تک ہندوستان سے آئے ہوئے آ خری مہاجر کو گھر الاٹ نہیں ہوتا وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اس طرح ائرمارشل اصغر خان کی اپنے پیشے میں مہارت میرٹ سے ان کی محبت اور مالی دیانتداری کے جو قصے ہیں۔ ان کو لکھنے کیلے ایک کتاب درکار ہے۔ صرف ایک کالم کا حجم ان کیلئے ناکافی ہو گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کاش کہ بعد میں آ نے والے ہمارے ارباب بست و کشاد مندرجہ بالا شخصیات کو اپنا رول ماڈل بناتے۔اب تذکرہ کچھ عالمی منظرنامے کا جہاں امریکہ نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ چین کو سکون سے نہیں رہنے دے گا اس لئے تو امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورے کے بعد قانون سازوں کا ایک اور وفد تائیوان کے دورے پر ہے۔تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے تائی پے کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے پانچ رکنی وفد سے گزشتہ روز ملاقا ت کی ہے۔ امریکی کانگریس کا یہ وفدایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے متنازعہ دورے کے 12دن بعد ہی تائی پے پہنچا۔ اس کا مقصد تائیوان کے لئے امریکی حمایت کی مزید توثیق بتایا گیا ہے۔تائیوان کی صدر سائی انگ وین اور وزیر خارجہ جوزف وو نے امریکی ایوان کانگریس کے وفد کو تائیوان آنے کی دعوت دی تھی۔تائیوان کی وزارت خارجہ نے اس نئے وفد کے دورے کو تائی پے اور واشنگٹن کے درمیان گرم جوش تعلقات کی ایک اور علامت قرار دیا۔ امریکی وفد نے پیر کی صبح تائیوان کی صدر سے بات چیت کے لیے ملاقات کی‘ اب یہ انداز ہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ کس طرح تائیوان کے مسئلے پر چین کو مصروف رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی توجہ اقتصادی ترقی کی بجائے جنگی تیاریوں پر مرکوز رہے۔یعنی امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔