دو روز پہلے ساون تو گیا گذر، مگر اس کے اثرات ابھی تک جاری ہے۔ساون کانام آتے ہی ذہن میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔مگر اس بار وہ کام ہوا۔جو پہلے اگر ہوا ہو تو یاداشت میں نہیں آ رہا۔پہلے یہاں وہاں ساون کی برسات موسم کو یوں خوشگوار کرتی تھی کہ سینہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔گانوں میں ان گنت گیت ہیں جو ساون کے موضوع پر ہیں۔جواس وقت میرے نوکِ زباں ہیں اور مچل رہے ہیں۔جی چاہتا ہے گنگنا لوں۔اس وقت ان کی آوازیں سن رہا ہوں۔ وہ گیت دل کو طمانیت اور سکون دینے والے ہیں۔ کہیں تو دیپ جلتے ہیں او رکہیں دل جلتے ہیں۔ ”بدنصیبی کا میں قائل تو نہیں ہوں لیکن۔میں نے برسات میں جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں“۔پھر بھی ساون ایک خوشگوار احساس کا نام رہا ہے۔مگر اس بار جو ساون کا حسین تصور اس پشکال کے مہینے میں تبدیل ہوا۔بادلوں نے وہ جل تھل مچایا کہ ہر سڑک کو بہتا ہوا دریا بنا دیا۔ جس میں ڈبے ڈولے شاپر اور جوس کے خالی ڈبے کوڑے کے شاپر بھی تیر کر آگے جا رہے تھے اور ساتھ بڑے اور بچے بھی ڈوب ڈوب کر آگے جاتے گئے۔کہیں ان کو تھام لیا گیا وگرنہ تو وہ موجوں کی نذر ہو کر نظروں سے یوں اوجھل ہوئے کہ پہلے کی طرح زندہ دکھائی نہیں دیئے۔اس وقت بھی ساون گذر جانے کے بعد یوں لگتا ہے بھادوں میں ساون کا پک الٹا پڑ گیاہے جو جاتے جاتے جائے گا۔ مگر کہیں اور تباہی نہ مچائے اس سے ڈر لگتا ہے۔ہمارے ہاں تو مون سون کی وہ صورت نظر نہیں آئی۔ جہا ں جہا ں کا مون سون تھا وہا ں وہاں تو خوب برسا مگر ہماری زمین محفوظ رہی۔ذرا اسلام آباد تک بھی بارش ہو لے تو ہمارے پشاور کو ٹھنڈی ہوائیں اور موسم کی خنکی مفت میں مل جاتی ہیں۔ مون سون ہو یا پری مون سون یا ساون کا مہینہ ہو اس بار تو اپنی تلخ یادوں کے سہارے گذر گیا۔ آج بھادوں کی دوسری تاریخ ہے۔یہ بھی بارشوں کے حوالے سے مشہور مہینہ ہے۔ وہ کیا گانے کے بول ہیں کہ ”میرے نیناں ساون بھادوں“۔مگر یہ ہے کہ خیر سے یہ مہینہ بھی گذرے او رہم سردی کے مہینوں کا مزا لیں۔ کیونکہ گرمی میں وہ تپش جو پچھلے سال تھی اب کے تو نہیں مگر سردی تو سردی ہوتی ہے۔اس کی اپنی خوشگواریاں ہیں ناہمواریاں ہیں۔مگر جو بھی ہو سردی میں انسانوں کا گذارا خوب اچھی طرح ہو جاتاہے۔ساون کے نام پر پیارے پیارے گیت اس بار بجائے خوشی کے اور نہال کرتے الٹا مشکل میں ڈال گئے۔ ا س میں ہمار ااپنا بھی قصور ہے۔جن کی وجہ سے ہم ساون کے حسن سے وہ مزا حاصل نہیں کر سکے جو ہر سال ملتا ہے۔کیونکہ پانی نکلنے کے راستے محدوو ہیں اور ندی نالے ہیں تو بند ہیں۔ذرا بارش ہو جائے تو سیلاب ہی آ جاتے ہیں۔پورے کے پورے شہر تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔انتظامیہ کو وختہ پڑ جاتا ہے کہ اب کیا کریں۔ ہمارے ہاں تو جو سڑکیں بنی ہوتی ہیں وہ پانی میں بہہ جاتی ہیں۔ان میں گڑھے پڑ جاتے ہیں اور گڑھے تالاب بن جاتے ہیں۔جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں ان کو پھر قابلِ استعمال کرنے میں ایک طویل عرصہ لگتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں اپنے عروج پر ہیں یہ نہ ہو سردیوں میں بھی بارشوں کا سلسلہ نہ رکے اور شہری اس کے پانیوں میں بہہ کر ڈوبیں اور آگے نکل جائیں۔