ویانا مذاکرات حتمی مرحلے میں؟

کیا امریکہ اور ایران کے مابین یورپی یونین کی ثالثی میں بالواسطہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں یا اب بھی معاہدے میں مشکلات موجود ہیں۔یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایران اور امریکہ دونوں کو معاہدے کے نکات پر ایک مسودہ دے دیا ہے اور یہ حتمی ہے۔ اگر ایران نے انہی نکات کے اندر معاملہ ختم نہیں کیا تو پھر ہماری ثالثی میں مزید مذاکرات نہیں ہوں گے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان پیٹر سٹانو کے مطابق مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے پاس حتمی متن موجود ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کا لمحہ ہے، ہاں یا نہ۔ ہمیں امید ہے کہ تمام شرکا فیصلہ جلد کریں گے۔امریکی دفتر خارجہ نے کہا کہ نیا مسودہ ہی واحد اور بہترین ذریعہ ہے جس کی بنیاد پر معاہدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم یورپی یونین کی تجاویز کی بنیاد پر فوری طور پر معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔جب کہ ایران نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ تحفظات، پابندیوں اور ضمانتوں کے تین شعبوں میں یورپی یونین کی تجاویز کا جائزہ لے رہا ہے۔ ایک ایرانی مذاکرات کار کے مطابق ہمیں یورپ کی تجاویز قبول ہوں گی اگر وہ ایران کے تحفظات، اس پر عائد پابندیوں کے واپسی اور معاہدے پر مستقبل میں یقینی عمل درآمد اور دیگر مختلف مسائل میں ایران کو ٹھوس ضمانتیں فراہم کرے۔ جب سیف گارڈ کے دعوے حل ہوجائیں تو حتمی معاہدہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے۔اس مسودے میں ایران کو اس کے جوہری پروگراموں کو محدود کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کی بات کہی گئی ہے۔ ایران کے وزیرخارجہ حسین امیر النہیان کے مطابق سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے میزائل پروگرام، علاقائی مسائل یا انسانی حقوق جیسے الزامات پر ایران میں افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، جو ہمیں ناقابل قبول ہیں۔ پھر ہمیں جوہری معاہدے کو دوبارہ نہ چھوڑنے کے لئے امریکہ کی زبانی ضمانت قبول نہیں۔ اسے ٹھوس ضمانتیں فراہم کرنا ہوں گی اور امریکی کانگریس کو جوہری معاہدے کے لئے اپنی وابستگی کا اظہار کرد دینا چاہئے۔ایران انہیں سرخ لکیر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے ایران کے جوہری پروگرام پر عائد تمام پابندیوں کو ہٹانے، ان کے اٹھانے کی تصدیق کرنے اور امریکہ کی طرف سے یہ وعدہ کیے بغیر کہ وہ دوبارہ معاہدے سے نہیں نکلے گا، ایران کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ ان کے بقول ہماری تین درخواستوں کا جواب ہنوز طلب ہے۔ یہ کہ پابندیاں کس حد تک ہٹائی جائیں گی، یہ ضمانت کہ امریکہ دوبارہ معاہدہ سے نہیں نکلے گا اور ایران کے پرانے مگر غیر اعلانیہ مقامات میں موجود یورینیم نشانات پر بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی تحقیقات سے کیسے نمٹا جائے گا۔ایران کہتا ہے 2015  کے جوہری معاہدے سے امریکہ کے 2018 میں اچانک انخلا ہی نے معاہدے کو پامال کیا تھا تو اب وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کو منسوخ کرے، سمجھوتے میں واپس آئے اور مستقبل میں معاہدے پرعمل درآمد کی یقین دہانی کروائے۔ تاہم امریکہ اب تک یہ ضمانتیں دینے سے انکار کرتا رہا ہے۔روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات سے مثبت نتیجہ کافی حد تک ممکن ہے۔ اگر امریکہ لالچ پر مبنی رویے سے دست بردار ہوجائے اور ایران پر سے پابندیاں ہٹا دے اور معاہدے کے فریقین کے مفادات کا خیال رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ویانا مذاکرات سے مثبت نتائج نہ نکل آئیں۔چین نے بھی امریکہ سے جوہری معاہدے میں واپسی اور مستقبل میں یک طرفہ اخراج بارے ایران کے منطقی خدشات کا جواب دینے کا کہا ہے۔اپریل میں ہی امریکہ کے دبا ؤپر یونان کی حکومت نے ایران کے مال بردار جہاز "لانا" کا تیل ضبط کیا تھا جسے ایران نے یونانی عدالت میں چیلنج کیا اور عدالت نے ایران کے حق میں فیصلہ دیا۔ اور اب وہ تیل ایرانی جہاز میں پھر لادا جا رہا ہے۔مذاکرات میں ایک اختلافی نکتہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے تفتیش کے حوالے سے بھی تھا۔ امریکہ چاہتا ہے ایران اپنی تنصیبات اس کے معائنے کیلئے کھول دے جبکہ ایران پابندیاں ہٹانے پر ہی اس کی اجازت دینے کو موقف رکھتا ہے۔ایران اور امریکہ کے مابین ایک اور تنازعہ یہ ہے کہ وہ 2015 کا معاہدہ بحال کرنے کے بجائے نیا معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور اس میں غیر جوہری مسائل کو شامل کرنا چاہتا ہے مگر ایران صرف 2015 کا معاہدہ بحال کروانا چاہتا ہے  امریکہ اور ایران دونوں ابھی طے نہیں کرسکے کہ ایران سے پابندیاں ہٹانے اور جوہری پروگرام پر کام بند کرنے میں پہلا کام کون کرے گا۔ ایران کا مطالبہ ہے کہ اس پر عائد تیل کی برآمد،پاسداران انقلاب، ایران کے روحانی پیشوا اور ایرانی صدر پر عائد ساری پابندیاں ختم کی جائیں اور پابندیوں کے خاتمے کی خود تصدیق کرے تو وہ جوہری معاہدے کے تحت اپنی ذمی داریاں ادا کرنا شروع کرے گا۔ امریکہ جب تک اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد نہ کرے اسے معاہدے میں شامل نہ کیا جائے۔ واضح رہے 2015 میں ایران امریکہ کے درمیان ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا جسے مشترکہ جامع منصوبہ عمل کہا جاتا ہے۔ معاہدے کے تحت ایران اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے، بین الاقوامی معائنے کے لئے اپنی سہولیات کھولنے، اپنے سویلین جوہری افزودگی پروگرام میں چلنے والے سینٹری فیوجز کی تعداد و اقسام اور افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرنے اور اپنے جوہری ایندھن کا 97 فیصد ملک سے باہر بھیجنے پر آمادہ ہوا‘ صدر جو بائیڈن کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا اورمعاہدے کو بحال کرنا ہے لیکن فریقین اس بات پر متفق نہیں ہوپا رہے کہ کن اقدامات کی ضرورت ہے اور کب اور کون پہلے قدم اٹھائے۔اس صورت حال میں کہ امریکہ کے روس اور چین کے ساتھ اختلافات بڑھ گئے ہیں اور وہ روس پر پابندیوں سے روس کو رام نہیں کرسکا۔ ایران بھی روس، ترکی، چین اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط بنا کر خود پر عائد پابندیوں کے اثرات کو بے اثر کرنے پر کام کررہا ہے اور وہ عرب دنیا کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے اور مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ امریکہ کو حقیقت پسندی سے کام لیکر اور انا کی قربانی دے کر ایران سے معاہدے کی راہ ہموار کر دینی چاہئے۔