خیبرپختونخوا میں علاج معالجے اور صحت کی سہولیات کا بندوبست و نظم و نسق کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ مالی وسائل (فنڈز) کی عدم دستیابی کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے طول و عرض بالخصوص ضلع نوشہرہ میں ”ڈینگی بخار“ کا پھیلاؤ روکنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جبکہ حکومت پولیو اور کورونا وائرس پر قابو پانے پر توجہ دے رہی ہے اور اِس صورتحال میں ڈینگی وبا ”نظر انداز“ کی جا رہی ہے‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ماہ سے کم عرصے میں خیبرپختونخوا میں ڈینگی مریضوں کی تعداد 213 سے بڑھ کر 415 تک جا پہنچی ہے اور اگر گزشتہ تین ماہ کے اعدادوشمار پر نظر کی جائے تو بالخصوص ڈینگی مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جون میں 38کیسز‘ جولائی میں 103 کیسز اور اگست میں 177 ڈینگی متاثرین (کیسز) سامنے آ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر تعداد ضلع خیبر‘ پشاور‘ ہری پور اور نوشہرہ کے اضلاع جبکہ ایک غیرمعمولی تعداد ڈیرہ اسماعیل خان (فرنٹیئر ریجن) سے بھی رپورٹ ہوئی ہے۔ محکمہئ صحت کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ رواں برس فروری میں صوبائی چیف سیکرٹری ڈاکٹر شہزاد خان بنگش نے خیبرپختونخوا میں ڈینگی کی صورتحال کے حوالے سے ایک جائزہ اجلاس کے بعد ڈینگی کا پھیلاؤ روکنے کے لئے 17 کروڑ (170ملین) روپے کے ہنگامی فنڈز کی منظوری دی تھی‘ یہ رقم صوبے کے تمام 36 اضلاع کے لئے تھی جس سے ڈینگی ٹیسٹنگ کٹس‘ ادویات‘ لاروا کش ادویات اور مچھر دانیوں کی خریداری کرنا تھی۔ علاوہ ازیں ڈینگی کا باعث بننے والے مچھروں کے بارے میں گھر گھر آگاہی اور شعور کے علاوہ ادویات کی فراہمی کے لئے طبی عملے (ہیلتھ ورکرز) کی نقل و حرکت کے لئے ایندھن و دیگر اخراجات بھی اِسی فنڈ سے ادا ہونے تھے تاہم محکمہئ خزانہ سے مذکورہ فنڈز وصول نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ڈینگی سے متعلق خیبرپختونخوا کی حکمت عملی پر بروقت عمل درآمد نہیں ہو سکا اور کئی اضلاع میں ڈینگی بخار پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔کورونا وبا کی نئی لہر سے درپیش خطرات اپنی جگہ پریشان کن ہیں جبکہ پولیو کے مثبت کیسیز سامنے آنے اور ’ڈینگی‘ کیسز میں اضافے سے متعلق اعدادوشمار صوبائی اور وفاقی فیصلہ سازی کا کڑا امتحان ہے۔ اِس صورتحال میں حکام ڈینگی پھیلنے کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں لیکن کیا یہ خبرداری کافی ہے؟ ذہن نشین رہے کہ ”ڈینگی“ نامی بیماری مچھروں کی وجہ سے پھیلتی ہے جس کا جرثومہ (وائرس) انسانوں میں مچھر کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور یہ وائرس اِس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ متاثر کرنے اور علاج ہونے کے بعد بھی مزید تین مرتبہ حملہ آور ہو سکتا ہے کیونکہ اِس کی باقیات جسم میں چھپی رہتی ہیں۔ مادہ مچھر سے پھیلنے والی ڈینگی بیماری صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ سو سے زائد ممالک میں عام ہے‘ جس سے بروقت علاج و احتیاط سے اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے لیکن بخار کی یہ حالت جو بظاہر معمولی لگتی ہے‘ چند ہی روز میں خطرناک صورتحال اختیار کر لیتی ہے اور موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ڈینگی کا نشانہ عام طور پر ایسے افراد بنتے ہیں جن کی جسمانی قوت مدافعت کمزور ہو۔ ڈینگی ہر مچھر سے نہیں پھیلتا بلکہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہوتا ہے جس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریں ہوتی ہیں اور دیگر مچھروں کی نسبت اِس کی ٹانگیں بھی لمبی ہوتی ہیں یعنی اِسے باآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ محکمہئ صحت کے حکام نے ڈینگی سے خبردار رہنے اور گردوپیش پر نگاہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ مچھروں کی افزائش کھڑے پانی میں ہوتی ہے اِس لئے پودوں کے آس پاس‘ گملوں اور کیاریوں میں پانی جمع ہونے نہ دیا جائے۔ اضافی احتیاط کے طور پر گھروں کی چھتوں پر نصب پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک ڈھانپ دینے چاہیئں اور اِس بات کی تسلی کر لینی چاہئے کہ کسی بھی صورت صاف پانی کو کھلا نہ چھوڑ جائے پاکستان کے کچھ حصوں میں ڈینگی پھیل رہا ہے جسے کورونا کے بعد نیا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ڈینگی سے اموات ہو رہی ہیں بالخصوص بارشوں کے جاری سلسلے کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع بشمول پشاور کے وہ علاقے بالخصوص محفوظ نہیں جہاں کے رہنے والے ماضی میں بھی ڈینگی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن کھلے خطرے کے باوجود وہاں کے باسی احتیاط نہیں کر رہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’ڈینگی‘ سے متعلق احتیاطی تدابیر جاری کرنا اپنی جگہ اہم لیکن اِس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے یقینا اِس مرتبہ ڈینگی وبا سے نمٹنے کی زیادہ بہتر تیاریاں کی گئی ہوں گی۔ ڈینگی پھیلنے کی ایک وجہ شہری اور دیہی علاقوں کا روایتی رہن سہن قرار دیا جا رہا ہے جس میں کھڑکیاں کھول کر یا کھلے مقامات پر نیند کی جاتی ہے اور مچھردانی کا استعمال جو کبھی عام ہوتا تھا انتہائی کم ہو چکا ہے۔ حکومتی اداروں کی جانب سے ڈینگی مچھر کے حملہ آور ہونے کے اوقات میں ادویات کا چھڑکاؤ (سپرے) کیا جاتا ہے لیکن سیاہ اور سفید دھاری والے مچھر کے خلاف یہ حربہ اِس لئے کافی نہیں کیونکہ سپرے پورے شہر یا علاقے میں نہیں کیا جاتا۔ مچھروں سے ملیریا‘ زیکا وائرس اور دیگر بہت سی بیماریوں پھیلتی ہیں‘ اِس لئے انہیں معمولی سمجھ کر نظرانداز کرنا جان لیوا غلطی ہو سکتی ہے۔ ڈینگی پھیلنا صحت کے وسائل پر بوجھ کی صورت اضافی دباؤ کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ ایک طرف کورونا اور دوسری طرف ڈینگی کی وجہ سے ہسپتالوں میں خصوصی علاج معالجے کی مختص سہولیات آبادی کے تناسب سے کافی نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وبا سے زیادہ افراتفری کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ طبی سہولیات سے محروم رہ جاتا ہے‘ہمیں دیگر ممالک کی ’ڈینگی حکمت عملی‘ کا جائزہ لینا ہوگا‘ جہاں اِس مچھر اور اِس سے پیدا ہونے والی بیماری کے خلاف زیادہ بڑے پیمانے پر اقدامات دیکھنے میں آتے ہیں اور چونکہ پاکستان میں انسداد ڈینگی کے لئے خاطرخواہ حساسیت اور تحریک نہیں پائی جاتی‘ اِس لئے بیماری اور اِس کا محرک کا خاتمہ کرنے میں کامیابی مقدر نہیں ہو سکی ہے۔ ڈینگی کے پھیلاؤ پر قابو پانے سے متعلق حکمت عملی بطور چیلنج لینا ہوگی اور اِس سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔