صائب رائے

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جشن آ زادی کے موقعہ پر اس صوبے کے وکلا کو بڑی صائب راے دی ہے کہ وہ مجبور طبقے کا خصوصی خیال رکھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلی عدالتیں بھلے وہ عدالت عالیہ ہو یا عدالت عظمی،انصاف کے حصول کیلئے وہ سائلین کی آ خری امید ہوتی ہیں اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو سائلین وہاں تک اگر پہنچ جائیں تو جلد یا بدیر ان کو انصاف ضرور مل جاتا ہے پر وہاں تک پہنچنا ہر سائل کیلئے آ ساں نہیں ہوتا کیونکہ ان عدالتوں میں پیش ہونے والے سائلین کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ان وکلا کی بھاری فیس ادا کر سکیں جو اعلی عدالتوں میں پیش ہونے کے مجاز ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومت بینچ اور بار کی یہ مشترکہ ذمہ واری بنتی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا جامع اور منظم میکنیزم تشکیل دیں کہ جس پر عملدرآمد کر کے سائلین کو اعلی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ اب ذرا ذکرہو جائے اہم عالمی خبروں کا۔ چین سائنس کے میدان میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اس نے حال ہی میں موسم میں تبدیلی کا پتہ لگانے والا ڈرون تیار کر لیا ہے جو اپنی پرواز کے راستے میں بادلوں، بارش کا پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 اس ڈرون نے چین کے شمال مغربی صوبے کے ایک ہوائی اڈے سے اپنی 75 منٹ کی پہلی پرواز مکمل کی جس میں اس نے اپنی صلاحیتیوں کو ثابت کیا۔شاید چین کی اس تیز ترین ترقی کو دیکھتے ہوئے امریکہ اسے جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے اور آئے روز تائیوان میں اپنے وفود بھیج کر اسے اشتعال دلا رہا ہے۔دوسری طرف چین نے نئے امریکی وفد کی تائیوان آمد پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید فوجی مشقوں کا آغاز ہو گا۔ پانچ رکنی ایک اور امریکی وفد نے پیر کو تائیوان کے صدر سے ملاقات کی تھی۔چین نے تائیوان کے لئے امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے 16 اگست سے مزید فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے اپنی نئی فوجی مشقوں کے بارے میں بہت کم تفصیلات کا انکشاف کیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ مشقیں کہاں اور کب کی جائیں گی جیسا کہ عام طور اس بارے میں بتا دیا جاتا ہے۔میساچوسٹس کے ڈیموکریٹک سینیٹر ایڈ مارکی کی قیادت میں ایک پانچ رکنی امریکی وفد نے پیر کو تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کی تھی، جس پر چین نے ایک بار پھر سے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز تائیوان پہنچنے والے امریکی وفد نے واضح کیا تھا کہ وہ تائیوان کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کرنے کے لئے تائی پے پہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا ہی ایک صوبہ مانتا ہے۔ گزشتہ روز امریکی وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد تائیوان کی صدر سائی نے کہا کہ ان کی انتظامیہ آبنائے تائیوان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے الزام لگایا کہ امریکہ ون چائناکی پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ تائیوان کی آزادی کی حامی علیحدگی پسند قوتوں کے ساتھ مل کر، مٹھی بھر امریکی سیاست دان ون چائنا کے اصول کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ناکامی اس کا مقدر ہے‘واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائی پے کے جواب میں، چین نے تائیوان کا محاصرہ کر کے آس پاس کئی روز تک حقیقی فوجی مشقیں کی تھیں۔ تاہم اس کے باوجود امریکی سینیٹرز کا ایک وفد اتوار کو پھر تائیوان پہنچا اور امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔لیکن امریکہ اس بات پر ابہام کا شکار ہے کہ آیا اگر جزیرے پر چین حملہ کرتا ہے تو وہ تائیوان کے دفاع میں آگے آئے گا یا نہیں‘ تائیوان کے ساتھ امریکی دفاعی تعلقات کی رہنمائی اس ''تائیوان ریلیشنز ایکٹ'' سے ہوتی ہے، جس پر 1979 میں قانونی طور پر دستخط کیے گئے تھے۔ اسی برس امریکہ نے سفارتی تعلقات کیلئے چین کو تسلیم کیا تھا۔امریکہ گرچہ ون چائنہ کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم ساتھ ہی تائیوان کے ساتھ اس کے نہ صرف دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ وہ اسے ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے‘ اور تائیوان خطے میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی بھی ہے‘چین کے شدید احتجاج کے باوجود امریکہ کی جانب سے تائیوان کو دفاعی فوجی ساز و سامان فروخت کرنا جاری ہے۔ لیکن سرکاری طور پر امریکہ نے فوجی مداخلت کا کوئی عہد بھی نہیں کر رکھا ہے‘اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کی کیا مدد کرے گا؟ کیا وہ جوابا تائیوان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے گا یا صرف اسے ہتھیار فراہم کرے گا۔ تو اس سلسلے میں یوکرین کی مثال سامنے ہے جسے روس کے مقابلے میں اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کے تحت اسے جنگ میں دھکیل دیا گیا اور اب اسے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔روس نے امریکہ عزائم کو جس طرح ناکام بنایا اور اپنے مفادات کا تحفظ کیا اسی طرح چین بھی اسے منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔