موبائل کارڈ گراں سے گراں ہوتا جا رہا ہے‘ کیونکہ اس کے اندر نیا ٹیکس لگا کر اس میں سے از خود رقم کی کٹوتی کر کے آپ کو پورے پیسوں میں کم ترین روپوں کا بیلنس مہیا کردیں گے‘ اصلاًپیکیج ہوگاسستا مگر بشمول ٹیکس کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔دکاندار آپ سے زیادہ پیسے مانگے کا آپ کہیں گے کل تو میں نے تین سو دس روپے کا کروایا تھا۔ وہ کہے گا ٹھیک ہے مگر اب مہنگا ہوگیا ہے اب یہ تین سو پچاس کا ہوگیا ہے‘ان پیکیجز کے ریٹ بھی تو پورے ارضِ وطن میں ایک ہی ہیں۔ایک توموبائل میں بیلنس ڈالو اور دکان کی سیڑھیاں اتر کر گھر آؤ تو موبائل میں ڈالی گئی رقم استعمال کے بغیرہی اڑن چھو ہو چکی ہوتی ہے‘ جانے یہ کمپنی والے کون کون سی سانپوں کی پٹاری از خود کھول لیتے ہیں کہ جس کا حساب یہ لوگ آن واحد میں خود ہی چکتا کر دیتے ہیں۔ فلاں فلاں چیز آپ نے موبائل میں ایکٹیویٹ کروائی تھی‘ حالانکہ ہم نے نہیں کروائی تھی‘ یہ موبائل کارڈ تو چٹکی بجاتے ہی ختم ہو جاتا ہے‘اگر ہفتہ وار پیکیج کرواؤ تو وہ بھی پانچویں دن میں قصہ ختم اورپیسہ ہضم ہو جاتا ہے۔موبائل تو اب ہر ذی ہوش کی ایسی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر گذارا نہیں‘سوال یہ ہے کہ وہ کون ہوگا عاقل و بالغ ہوش مند جس کو موبائل فون سے سروکار نہیں۔
خوراک کیلئے پیسے نہ ہوں تو بھوکے رہ کر وقت گذارا جا سکتا ہے‘ مگر موبائل میں بیلنس نہ ہو تو وقت ہمیں گذارنے لگتا ہے۔لہٰذا جیسے بھی حالات ہوں موبائل میں بیلنس کا اورپیکج کا ہونا بے حد ضروری ہے‘گھر والی کو پیکیج کروا کے دو تو جلد ہی یہ صدا کانوں میں ابھرتی ہے کہ میرا پیکیج ختم ہو گیا۔ ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ اب پرسوں ہی تو پیکیج کروایا تھا۔ ان کا فرمانا ہوتا ہے کیوں جی پرسوں کہا ں کروایاتھا۔آج پانچواں روز ہے‘ہم عرض گذار ہوتے ہیں کہ ہاں ابھی پیکیج ختم ہونے میں دو دن باقی ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ سات دن کے پیکیج میں وہ چھٹے دن ہی بیلنس اڑا کر ختم کر دیتے ہیں۔ہم فریاد کرتے ہیں کہ آپ نے بھی تو ایک دن پہلے ہی اپنے حساب میں سب بیلنس ختم کردیا۔اب آدمی کس کس طرف توجہ دے۔ جیسے بجلی کے بل ہیں ویسے ہی موبائل کے پیکیج ہیں۔ ہر ہفتہ دس دن میں موبائل پیکیج کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔اب تو گھر کے ہر فرد کے پاس موبائل آ گیا ہے۔جتنے موبائل ہوں گے اتنے پیکیج ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ خرچہ ہوگا۔موبائل کو استعمال کرو تو جینا حرام اور نہ کرو زندگی اجیرن۔
پھر یہ کون سا سکون سے بیٹھنے دیتے ہیں‘ بیلنس ڈالا اور سگنل الگ غائب ہو جاتے ہیں‘اس موبائل کا کیا مزہ کہ ہیلو ہیلو کرتے ہوئے گھر سے کے مین گیٹ سے باہر نکل جاؤ کہ گلی میں سگنل آتے ہیں۔دوسری طرف کی آواز بھی سنائی نہ دے اور اسی کش مکش میں بیلنس بھی اڑجائے۔ پھر جاؤ او ربیلنس ڈلوا کر لاؤ۔اگر لڈو بھی کھیلو اور وہ بھی آف لائن ہو تو جانے انھوں نے اس میں کون سا کمال کر دیا ہے بلکہ کمال نہیں شرارت کہ وہا ں بھی اشتہار آجاتے ہیں۔ خبریں لگاؤ تو وہاں بھی مشہوریاں ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ لوگ کس کس طرح سے پیسے کمارہے ہیں اوربیوقوف بنارہے ہیں۔پھر دوسری طرف ہم ہیں کہ بیوقوف بن کر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔پھر موبائل کے سگنل نہ ہوں تو بندہ کڑھتا جلتا ہے۔کوئی مووی ہو اور ارجنٹ ہو معلوماتی ہو یوٹیوب چلے تو کیسے چلے کہ بیچ میں گولا گھومتا ہوا آئے گا اور نشریات کو سیلاب کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
اپنے ہی نیٹ ورک والے فون پر رنگ دو تو ہزاروں منٹ فری ہیں اور کسی دوسرے نیٹ ورک پرفون کرو تو جھٹ سے منٹ ختم جاتے ہیں۔پیکیج میں بھی ایسی پالیسی روا رکھی گئی ہے کہ کچھ تو جلد اڑ جاتا ہے کچھ باقی رہتا ہے۔ جو باقی رہ جاتا وہ کام کانہیں ہوتا۔پیسہ کمانا اس طرح تو آسان ہوا کہ کسی کو جُل دے کر آنکھوں میں دھول جھونکو پھر اسی دھول کو انہیں آنکھوں سے سرمہ سمجھ کرنکال لو۔سگنل نہ ہوں تو اس علاقے میں جس نیٹ ورک کے سگنل مضبوط ہوں سم کو بدل کر وہی نیٹ ورک حاصل کرناپڑتا ہے۔نمبر کسی اور نیٹ ورک کا اور سگنل کسی دوسرے نیٹ ورک کے۔آدمی کیلے تو خرید نہیں رہا کہ اس ہتھ ریڑھی پر مہنگے ہیں تودوسری ہاتھ گاڑی کی طرف بڑھ جاؤ۔ اس لئے لینا ہے توبس اسی ایزی لوڈ کی دکان سے لوڈ کرواؤ گے وگرنہ کہیں اور نہیں سیدھا گھر جاؤ گے۔