ٹریفک کے حادثات میں روزانہ ہماری سڑکوں پر جتنی تعداد میں لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں ان کی تعداد عارضہ دل یا کینسر سے روزانہ مرنے والے لوگوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ مقام افسوس ہے کہ اس ضمن میں متعلقہ سرکاری اداروں نے معاملات کو درست کرنے کی صحیح معنوں میں کبھی کوشش ہی نہیں کی ہمیں ایک نہیں بلکہ کئی چیزوں کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ یورپ یا دیگر مغربی ممالک یا عرب امارات میں بھی ڈرائیونگ لائسنس کا حصول اتنا آ سان نہیں کہ جتنا ہمارے ہاں ہے۔سڑکوں پر گاڑیاں چلانے والے نوے فیصد ڈرائیوروں کو ٹریفک قوانین کا سرے سے پتہ ہی نہیں اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد آپ کو گاڑی چلاتے نظر آ ئیں گے۔ اس ملک میں کوئی ایسا فول پروف میکینیزم موجود نہیں کہ جس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو گاڑیاں روڈ پر چل رہی ہیں وہ مکینیکلی سو فیصد فٹ ہیں اور کسی ٹیکنیکل فالٹ سے وہ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوں گی۔ اسی غفلت کی وجہ سے ٹریفک حادثات یا تو ٹائی راڈ ٹوٹنے سے رونما ہوتے ہیں یا پھر ٹائر پھٹنے سے اور یا پھر بریک فیل ہونے سے۔
نجی سیکٹر میں جو بسیں ویگنیں کوسٹر وغیرہ چلتی ہیں ان کے ڈرائیوروں کو مناسب آ رام کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا یوں تھکاوٹ اور بے خوابی کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے زیادہ تر حادثات پیش آتے ہیں۔اوور سپیڈنگ کرنے والے ڈرائیور تو کسی نرمی کے مستحق ہی نہیں جب تک ان کیلئے قانون میں جیل کی سزا تجویز نہیں کی جائے گی اور ان کا ڈرائیونگ لائسنس 10 سال کیلئے کینسل نہیں کیا جائے گا۔ ان کے ہوش ٹھکانے نہیں آئیں گے۔ اوور سپیڈنگ میں ملوث ڈرائیوروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو اس سے تیز رفتاری کے باعث ہونے والے حادثات میں کمی آسکتی ہے۔اسی طرح ایک اور معاملہ ممنوعہ بور کے آ ٹومیٹک اسلحے کی فراوانی ہے۔ یہ چھوٹی سی بات نہ جانے ہمارے ارباب بست و کشاد کی سمجھ میں کیوں نہیں آ تی،بے شک دشمن دار افراد کو اپنی حفاظت کیلئے تفصیلی انکوائری کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلحہ کے لائسنس جاری کرے پر وہ صرف غیر ممنوعہ بور کے ہوں۔
ا ب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس پہلے سے ہی اس قسم کا اسلحہ موجودہے اس کو ان سے کیسے ریکور کیا جائے۔ اس کا بھی حل موجود ہے پر اس کے لئے سب سے پہلے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ نیا قانون پاس کیا جائے جس میں ایک تاریخ مقرر کی جائے کہ جس تک جس کسی کے پاس بھی ممنوعہ بور اسلحہ موجود ہو وہ اسے اپنے نزدیکی تھانے میں جمع کرائے اور تھانیدار اس کے عوض اسے رسید دے قانون میں ایک تاریخ کا بھی تعین کیا جائے کہ اگر اس تاریخ کے بعد کسی کے پاس ممنوعہ بور کا اسلحہ پایا گیا تو اسے بیس لاکھ روپے جرمانہ اور دس برس قید سخت دی جا سکتی ہے اور اس کے بعد اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ صرف مندرجہ بالا طریقہ اپنانے سے اس معاشرے کو ممنوعہ بور کی لعنت سے پاک صاف کیا جا سکتا ہے۔