گرین شرٹس نے ہالینڈ کو پہلے ونڈے میں شکست سے دوچار تو کردیا ہے تاہم یہ جیت اپنے ساتھ بہت سے خدشات بھی لائی ہے۔ٹام کوپر کے کریز سے باہر نکل کر شاٹ کھیلنے کا نظارہ دیکھنے لائق تھا۔ یہ جارحیت کا ایک غیر معمولی مظاہرہ تھا کہ وہ خود سے کہیں تگڑے اور نامی گرامی باؤلرز کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے اور گیند کو پے در پے بانڈری کی سیر کروا رہے تھے۔جس عزم سے کوپر اس ہدف کے تعاقب میں گامزن تھے، یکبارگی ہالینڈ کے کھلاڑیوں کے امیدوں کے چراغ سے جل اٹھے اور گرین شرٹسپر ایک بدحواسی سی طاری ہوئی۔ قومی ٹیم کی یہ بدحواسی بالکل بجا تھی کیونکہ پچ بیٹنگ کے لیے سازگار تھی، گیند کھل کر بلے پر آ رہا تھا اور اس وکٹ کے اعتبار سے قومی ٹیم کا مجموعہ 30, 35 رنز کم تھا۔مگر بالآخر حارث رؤف کوپر کو مات دینے میں کامیاب ٹھہرے لیکن کوپر کے کریز سے رخصت ہونے کے بعد بھی ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ بابر اعظم کی سانس میں سانس آ گئی ہو بلکہ کپتان سکاٹ ایڈورڈز میدان میں اُترے اور جارحیت کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے کوپر نے منقطع کیا تھا۔
اگر یہاں وکرمجیت سنگھ کی اننگز ایسی سست روی سے دوچار نہ ہوتی تو شاید آخری اوورز میں مطلوبہ رن ریٹ قدرے کم ہوتا اور ایک غیر متوقع اپ سیٹ گرین شرٹس کا مقدر رہتا مگر بھلا ہو شاداب خان اور فخر زمان کی اننگز کا، کہ اس خطرے کو ٹال گئے۔فخر زمان کے لئے گزشتہ چند مہینے خاصے صبر آزما رہے ہیں۔ ون ڈے کرکٹ کے فقدان اور ٹی ٹونٹی میں اپنے بیٹنگ آرڈر سے ہٹ کر کھیلنے کے سبب، وہ اپنی شہرت سے انصاف نہیں کر پائے مگر روٹرڈیم کی وکٹ ان کی بلے بازی کے انداز سے گہری مطابقت رکھتی تھی۔فخر زمان ہائی بیک لفٹ سے کھیلتے ہیں اور جہاں وکٹ میں قدرے بانس زیادہ ہو، وہاں ان کے لیے بازو کھولنے کا پورا پورا موقع میسر ہوتا ہے۔ یہاں کلاسن جیسے تجربہ کارباؤلر سے محروم ڈچ باؤلنگ اٹیک کے خلاف انھوں نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے کرئیر کی ساتویں سینچری جڑ کر پاکستان کے مجموعے کو کسی قابلِ قدر حیثیت تک پہنچایا۔پاکستان کے لیے بابر اعظم کی قائدانہ اننگز اور فخر کی یہ کاوش بھی کم پڑ جاتی اگر شاداب خان کی آتش بازی شاملِ حال نہ ہوتی۔
آخری اوورز میں جب پاکستان کے لئے 300 کا ہندسہ چھونا دشوار ہو رہا تھا، وہاں شاداب خان کی آل راؤنڈ صلاحیت نے گرین شرٹس کے لئے میچ بنا دیا اور ایسا ہدف تشکیل دیا جو بعد ازاں نسیم شاہ اور حارث رؤف کے لئے قابلِ دفاع ثابت ہوا۔مگر ان چند قابلِ ذکر پرفارمنسز کے سوا، بحیثیت مجموعی یہ قومی ٹیم کے لئے قطعی کوئی قابلِ رشک میچ نہیں تھا اور یقینا یہ ٹیم بھی اس کارکردگی کو دہرانا نہیں چاہے گی۔جس طرح سے کیچز ڈراپ کئے گئے اور رن آٹ کے بے شمار مواقع ضائع کیے گئے، ان سے عیاں ہے کہ فیلڈنگ کوچ کو ایشیا کپ سے پہلے پہلے بہت کچھ کر گزرنا ہو گا۔بابر اعظم کو جب ون ڈے ٹیم کی کپتانی سونپی گئی تھی، تب انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ مثبت اور جارحانہ ماڈرن کرکٹ کھیلیں گے مگر روٹرڈیم کی یہ پرفارمنس کسی بھی لحاظ سے مثبت، جارحانہ یا ماڈرن نہیں تھی اور پاکستان کے لئے مڈل آرڈر کا عقدہ ابھی بھی وہیں کا وہیں ہے۔
اگر دونوں ٹیموں کی استعداد اور صلاحیت کو اس سکور لائن سے منہا کر دیا جائے تو شاید یہ قومی ٹیم کے لئے تسلی بخش کارکردگی ہو لیکن اگر دونوں ٹیموں کی رینکنگ کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو 2022 کی ون ڈے گیم میں ایسا سست آغاز کسی بھی طور سے قابلِ توجیہہ نہیں۔مزید برآں جب اس منظرنامے میں وکٹ کی تیزی اور ڈچ باؤلنگ کی ناتجربہ کاری کے عوامل بھی شامل کیے جائیں تو اُبھرنے والی مجموعی تصویر شاہینوں کے لیے خاصی پریشان کن نظر آتی ہے۔اگرچہ حتمی نتیجے میں فاتح قومی ٹیم ہی ٹھہری مگر اس امر کا بابر اعظم کو بھی بخوبی ادراک ہو گا کہ شاداب خان کی جارحانہ اننگز نے ان کی لاج رکھ لی ورنہ یہاں ہزیمت خارج از امکان ہرگز نہیں تھی۔
ہالینڈ کے خلاف میچ تو پاکستان جیت گیا تاہم قومی ٹیم کی کچھ کمزوریاں بھی اس موقع پر سامنے آئیں جن سے اگر چھٹکارا نہیں پایا جاسکا تو یہ اہم بین الاقوامی مقابلوں میں ہماری کامیابیوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں فیلڈنگ کے شعبے کو مضبو ط کرنا ہوگا کیونکہ کہتے ہیں کہ کیچز ون میچز۔۔ یعنی کیچ پکڑنے سے ہارے ہوئے میچ جیتے جا سکتے ہیں اس طرح کیچ ڈراپ کرنے سے جیتے ہوئے میچز ہارے جاسکتے ہیں۔ ہالینڈ کے خلاف میچ بھی ہم ہا رسکتے تھے کیونکہ ہماری فیلڈنگ ناقص تھی اور کئی یقینی کیچز ڈراپ کئے گئے۔ اس حوالے سے قومی ٹیم کے بڑوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کسی طرح ان کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں جن کی موجودگی قومی ٹیم کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔