اب تو شادی ہالوں میں بیاہ ہو رہے ہیں۔مقابلہ بازی ہے۔اگر کسی رشتہ دار نے مہنگے شادی ہال میں بارات کا کھانا دیا ہے تو کیاہوا۔اس کی دیکھا دیکھی قریب کے دوسرے عزیز زیادہ گراں اور شہر کے معروف شادی ہال میں ولیمہ کی روٹی کا بندوبست کریں گے۔ اب شادی ہال والے بھی سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے شادی ہالوں کا نام بدل کرگیدرنگ ہال رکھ دیا ہے۔ یعنی شادی سے ہٹ کر بہت سارے دیگر اجتماعات کیلئے بھی اب ہال دستیاب ہیں۔ویسے شادی ہالوں کی ڈیمانڈ اتنی ہے کہ بعض شادی ہال والوں کو اپنے ہال کا نام بدلنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ اوپر تلے شادیوں کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔دھم دھما دم اور پھر ڈھول کی تھاپ پر جھومتے جھامتے رقص کرتے نوجوان اپنے آپ سے بے نیاز شادی ہال کے مین گیٹ کے پاس بارات کے ساتھ آئے اور مووی کیمرہ میں اپنی انٹری دینے کے لئے خوب پرجوش ہیں۔خوشی کا موقع ہے ہر آدمی چاہتا ہے کہ اپنی خوشی میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو جائے۔ ناچے اور خوب ناچے۔خدا کرے ان کو اور بھی خوشیاں نصیب ہوں۔جن کو اب تلک نہیں ملیں ان کو بھی بارگاہِ الہہ سے مسرت کے یہ مواقع دستیاب ہوں۔آج کل تو جتنی خوشیاں ملیں اتنا کم ہیں۔مگر یہ ہے کہ خوشی کسی کی ہو تو دوسرے قریب و دور کے رشتہ دار او ردوست یاروں کو بھی اس پر مسرت موقع کی ہنگامہ پرور کیفیت میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔مگر یہ ہے کہ غم جسے ملتا ہے وہ غم اسی کا حصہ ہوتا ہے۔
یہ غم کوئی بوجھ نہیں جو اپنے کاندھے سے اتار کر دوسرے کے شانوں پر لاد دیا جائے اور بندے کی جان چھوٹ جائے غم تو غم ہے جس پر آئی اسی پہ آئی۔مگر یہ ہے کہ شادی ہالوں سے پہلے گلی میں بیاہ شادی کے موقع پربھی اور خدا نہ کرے کسی غمی کے دنوں میں بھی گھروں کی بیٹھکیں کھل جاتی تھیں۔ شادی بھی اور غم کا موقع بھی اچھے طریقے سے انجام پاتا تھا۔بچوں کے دوست یاراور رشتہ دار کزن وغیرہ اپنی خدمات رضاکارانہ طور پرحوالے کر دیتے تھے۔پھر پوری شادی کی تقریب کو بہ احسن اختتام تک پہنچا تے۔ہوٹل اور شادی ہالوں کے باوردی اہل کاروں کی ضرورت نہ ہوتی کہ وہ کھانا تقسیم کریں۔ گھروں کی بیٹھکوں میں بھی اس وقت اس نظام میں تبدیلی آئی جب خاندان یاباہر کے کچھ لوگ جنھوں نے یہ بزنس اول اول سٹارٹ کیا۔ وہ تمام شادی کاذمہ لے لیتے تھے۔ فی کس کے حساب سے پیسے وصول کرتے اور ساتھ کھانے کا مینو بھی پوچھ لیتے۔شادی کے گھروالوں کی کسی چیز کی تنگی نہ ہوتی۔ سب کچھ وہی ٹھیکیدارلے کر آتے اور پھر نفری اور افرادی قوت بھی ان کی اپنی ہوتی۔اسی سے شادی ہال کے تصور کو تقویت ملی۔اس طرح بھاگم دوڑی اور خدمت تو گھروں کی شادیوں میں خرید لی جاتی تھی۔ مگر جگہ کا مسئلہ ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ان ٹھیکیداروں نے شادی ہال ٹائپ کی جگہ کا بندوبست کر لیا تھا۔ وہ اپنا ہی بڑا گھریا اپنے کسی واقف کار کا گھر شادی کے لئے لیتے اور وہاں یہ ساراانتظام کر لیتے۔
اب نفری بھی ان کی اور جگہ بھی ان کی ہو جاتی۔صرف شادی کے آخر میں روپیہ ہمارا جاتا۔ پھراس کے بعد سڑک کنارے بڑے ہال کا تصور ابھرا جو شادی ہال کے وجود کے ساتھ تبدیل ہو گیا۔پھر اب تو اور ہی صورتِ حال ہے۔خاص شادیوں کو سامنے رکھ کر کاروبار کی نیت سے شادی ہال بنائے جا رہے ہیں۔اعلیٰ سے اعلیٰ شادی ہال ہیں۔جہاں زبان کی لذت کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ہوتے ہیں۔بڑی پارکنگ ہوتی ہے۔دل خوش ہو جاتاہے۔ترقی اسی طرح ہوتی ہے آہستہ آہستہ ایک چیز آؤٹ ڈیٹ ہوجاتی ہے اس کو اپ ڈیٹ کر کے اپ ٹو ڈیٹ کردیا جاتا ہے۔پھر اس حد تک کہ ترقی کے سامنے آجانے کے بعد واپس بیٹھکوں کے دورمیں واپس جانا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتاہے۔شادی ہال تو اب بہت رواج پا چکے ہیں مگر اس کے باوجود جو افورڈ نہ کر سکیں وہ گلی محلے میں ایک دوسرے کے گھروں کی بیٹھکوں ہی کا سہارا لیتے ہیں او رکام چلاتے ہیں۔گاؤں وغیرہ میں اب بھی بیٹھکوں اورحجروں کا چلن عام ہے مگر شہر کی فضا کچھ اور طرف جا رہی ہے۔شادی ہو اور شادی ہال میں نہ ہو، کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔کلچر تبدیل ہوتے رہتے ہیں رسوم ورواج میں تبدیلیاں آتی ہیں اسی طرح پچھلے آثار مٹ جاتے ہیں اور آگے نئی نئی باتیں بطور رواج اپنا مقام بنا لیتی ہے۔پہلے کہتے کہ دستر خوان بچھا دو اب کہتے ہیں کہ شیٹ بچھا دو اس طرح کی سینکڑوں باتیں اب نئی ہو کر سامنے آگئی ہیں۔