عالمی اداروں کے مطابق 1960ء سے لے کر اب تک 147 ممالک دیوالیہ ہوئے ہیں جبکہ اِس فہرست میں روس کا نام بھی شامل ہونے جا رہا ہے کیونکہ یوکرین کے ساتھ جنگ اور عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس اپنے قرضوں کی اقساط بروقت ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اُسے 11کروڑ 70لاکھ ڈالر قرض کی قسط ادا کرنا تھی‘ جو نہیں کرسکا۔ کمزور معیشت اور غیر محتاط اخراجات کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کی اہم وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے زرِمبادلہ میں قرض لئے ہوں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر انہیں رقم کی ضرورت ہو تو بھی ان کا مرکزی بینک انہیں کرنسی چھاپ کر نہیں دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ڈیفالٹ کرنے والے ممالک اپنے غیر ملکی قرضوں پر نادہندہ ہوئے۔ماضی میں نادہندہ ہونے والے ممالک بشمول ارجنٹینا اور یونان کے ڈیفالٹ کیوں ہوئے‘ تکنیکی طور پر ’ڈیفالٹ ہونے سے کیا مراد ہوتی ہے؟‘ جس طرح کوئی کاروباری کمپنی قرض لیتی ہے عین اسی طرح ملک بھی مختلف اداروں سے قرض لیتے ہیں اور قرضوں پر سود کی اقساط معمول کے مطابق واپس بھی کرتے ہیں۔ اگر کوئی کمپنی نادہندہ ہوجائے تو اس کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کاروائی ہوتی ہے اور عدالت کمپنی کے اثاثے فروخت کرکے اس کی رقم قرض دینے والوں کو واپس کرنے کا حکم دیتی ہے لیکن اگر کوئی ملک ڈیفالٹ ہوجائے تو اس کے خلاف کسی کمپنی کی طرح کوئی قانونی چارہ جوئی تو نہیں ہوسکتی مگر اس ملک کی پوری قوم کو قیمت چکانا پڑتی ہے تاہم قرض دینے والے اپنے رقم کی وصولی کے لئے ملکی وسائل پر زبردستی قبضہ نہیں کرسکتے‘ ملک کے نادہندہ ہونے کی صورت میں اس ملک کو مزید قرض کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ جب بھی کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو وہ اپنے قرض دینے والوں کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کے بعد سب سے پہلے اس ملک کے بنیادی شرح سود پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عالمی منڈی میں جاری کیے گئے ایسے بانڈز جن کی ادائیگی کی تاریخ قریب ہو ان پر شرح سود بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے یوں اس ملک میں کام کرنے والے کاروباری اداروں کو بھی قرض زائد شرح سود پر ملتا ہے‘کسی ملک کے ڈیفالٹ کی صورت میں پوری معیشت متاثر ہوتی ہے اور سرمایہ کاری کا عمل رک جاتا ہے اس کے منفی اثرات سے حصص مارکیٹ بھی محفوظ نہیں رہتی‘ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار حصص کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کو محفوظ کرسکیں‘ ملک ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں چند دنوں میں اسٹاک مارکیٹ چالیس سے پچاس فیصد تک اپنی کیپٹلائزیشن کھودیتی ہے جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کی بیرونی تجارت بھی متاثر ہوتی ہے‘ کوئی غیر ملکی بینک ایک ڈیفالٹ بینک کے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کو تسلیم اور قبول نہیں کرتااس سے اُس ملک کی درآمدات تقریباً رک جاتی ہیں اس صورتحال میں نادہندہ ملک کے اندر بے روزگاری بڑھتی ہے حکومت اور کارپوریٹس دونوں اپنے کاروبار کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نئی ملازمت دینے کے بجائے پہلے سے موجود ملازمین کو فارغ کرکے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی کسی ملک کے نادہندہ ہونے کے منفی اثرات پورے ملک کی معیشت کو لے بیٹھتے ہیں‘ ساتھ ہی ملک کے اندر مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہوتی ہے‘ بیشتر ممالک جدید معاشی نظام میں کسی نہ کسی وقت ڈیفالٹ یعنی قرضوں کی نادہندگی کا سامنا کر چکے ہیں اور چند ایسے ملک بھی ہیں جو ایک سے زیادہ مرتبہ دیوالیہ ہوئے لیکن اُنہوں نے اپنی معیشت کو مقامی وسائل سے سہارا دیا اور خود کو سنبھالا۔ عالمی معیشت میں قرض لینے میں حرج نہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اندرونی و بیرونی قرضہ جات سے قومی آمدنی میں اضافہ کیا جائے‘ علاؤہ ازیں بدعنوانی سے پاک معاشی نظام اور مالی نظم ونسق چاہئے ہوتا ہے جسے بہتر و فعال بنا کر مستحکم ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں اور چاہے کوئی ملک دیوالیہ ہو یا نہ ہو لیکن اگر اُس کے ہاں معاشی نظام اور مالی نظم و نسق درست ہے تو اُسے گھبرانے (فکرمندی) کی ضرورت نہیں رہتی‘ پاکستان بھی اپنا مالیاتی نظم و نسق بہتر بنا کر بآسانی معاشی مشکلات سے نکل سکتا ہے اور ممکنہ ڈیفالٹ جیسی صورتحال سے یقینی طور پر بچ سکتا ہے لیکن اِس کے لئے مالیاتی و انتظامی نظم و نسق کا ہونا ضروری ہے۔