انسداد پولیو کا خواب

خیبرپختونخوا میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر ایک اور حملے میں‘ پولیو ٹیم کی حفاظت کرنے والے دو پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں‘ نامعلوم حملہ آوروں نے ضلع ٹانک کے علاقے کوٹ اعظم میں پولیو ٹیم پر خودکار ہتھیاروں سے اس قدر اچانک حملہ کیا کہ مسلح پولیس اہلکار سنبھل نہ سکے۔ قبائلی علاقوں کا بطور بندوبستی اضلاع انضمام سے امید تھی کہ سرحدی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور بالخصوص افغانستان سے جڑی اِس پٹی میں صحت و تعلیم وہ تمام سہولیات سمیت تعمیروترقی کو توسیع دی جائے گی لیکن قبائلی اضلاع کی حیثیت تبدیل ہوئی لیکن شب و روز نہیں یہی وجہ ہے کہ انسداد پولیو مہمات کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں اور پہلے سے زیادہ غیریقینی حاوی ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیو کے خاتمے کیلئے جاری ملک گیر مہم خطرے میں ہے کیونکہ کسی ایک بھی علاقے میں بچوں کو پولیو ادویات دینے سے انکار کے نتیجے میں ویکسی نیشن کا ہدف مکمل نہیں ہوتا اور پولیو کا باعث بننے والا جرثومہ قرب و جوار کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلتا رہتا ہے‘ انسداد پولیو مہمات میں حصہ لینے والوں پر حملہ اور قیمتی جانوں کا ضیاع قابل افسوس و مذمت ہے تاہم اِسے سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہئے اور حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے اِن پر نظرثانی کا متقاضی ہے‘ مجموعی طور پر سال دوہزاربائیس ’انسداد پولیو مہمات‘ کیلئے سازگار نہیں رہا‘ اپریل کے دوران‘ پندرہ ماہ میں پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا اور پھر ملک میں مزید چودہ کیسز سامنے آئے یہ تمام کیسز خیبرپختونخوا کے ایک چھوٹے سے علاقے میں سامنے آئے ہیں‘ شہری علاقوں میں صورتحال بہتر ہے لیکن بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرک‘ ٹانک اور وزیرستان جیسے اضلاع کے دیہی علاقوں میں پولیو سے انکار کرنے والوں کی تعداد نسبتاً پہلے سے زیادہ ہے اور ان علاقوں کے بہت سے دیہات نے پولیو ٹیموں پر متعدد حملے دیکھے ہیں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا عبدالشکور نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت ان علاقوں میں امن بحال کرنے میں ناکام رہی تو سابقہ قبائلی علاقوں کے لوگ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا بائیکاٹ کر دیں گے‘انسداد پولیو مہم کو تمام حلقوں سے‘ زیادہ تر حکومتی وزرأ کی طرف سے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے‘ مہم کے بائیکاٹ کی کوئی بھی بات حکومتی فیصلہ سازی اور عمل درآمد کو کمزور اور حکومتی حکمت عملیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے مترادف ہے‘ بلاشبہ امن کی بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اسے پولیو مہم سے جوڑنا غلط مشورہ ہے اور یہ غلط مشورہ بھی غلط وقت پر دیا گیا ہے چونکہ پاکستان پولیو محاذ پر پاکستان کی کامیابیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں‘ اسلئے خیبرپختونخوا حکومت کو بھی پولیو سے متعلق عوامی آگاہی بڑھانے کیلئے حکمت عملی وضع کرنی چاہئے‘ جب بھی پولیو ٹیموں پر حملے ہوتے ہیں‘ ریاستی اہلکار ان کی مذمت کرتے ہیں اور مجرموں سے ’نمٹنے‘ کے عزم کا وعدہ کرتے ہیں لیکن عملاً خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے‘ حقیقت یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں نے پولیو ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنے میں بڑی قربانیاں دی ہیں‘ پاکستان کی پولیس جسے چیک پوسٹوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے‘ پولیو ورکرز اور سیاستدانوں کی حفاظت کرتی ہے‘ اور وقت ہے پولیس اہلکاروں کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کیا جائے کیونکہ وہ اِس کے مستحق ہیں‘ سکیورٹی نمائندوں کے طور پر‘ پولیس صف اول میں نشانہ بنتی ہے‘پولیو کیخلاف جنگ بہرحال اور بہرصورت جیتنے کیلئے سکیورٹی انتظامات پر نظرثانی اور پولیس نفری میں اضافہ ضروری ہے تاکہ پولیو ٹیموں پر حملہ آور ہونے والے فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور اُنہیں موقع پر ہی سزا دی جائے‘ ایسا کرنے کے سوا پولیو مہمات کی کامیابی کا کوئی چارہ نہیں ہے‘پاکستان کو باضابطہ طور پر پولیو سے پاک ملک قرار دینے کیلئے ضروری ہے کہ مسلسل تین سال تک پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہ آئے لیکن تمام تر پیشرفت کے باوجود ہم ابھی تک اس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں‘ درحقیقت جو طبقہ انسداد پولیو اور پولیو کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوششوں کی ناکامی کا باعث بن رہا ہے وہ اپنے اور دوسروں کے بچوں کا مستقبل اِس صورت تاریک کر رہا ہے کہ پولیو سے متاثرہ بچے تمام عمر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں!