دیکھیں کہہ تو رہے ہیں کہ حالات بہتر ہو جائیں گے اور بہتری کی طرف مائل ہیں مگر یہ کب ہوگا او رکیسے ہوگا اس کے بارے میں خاموشی ہے‘ اب تو حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ہمارے ہاں کے کنویں میں دنیا ہی بدل گئی ہے مگر یہ سارا طوفان چائے کی پیالی کے اندر ہے پہلے رکشے میں بیٹھتے تھے تو اس بات کی سمجھ نہ آتی کہ وہ سیدھا اور صاف رستہ مگر لمبا راستہ چھوڑ کر تنگ و زنگ آلود راستوں سے ہوکر کیوں جاتا ہے‘بھلے رش میں پھنس جائے مگر یہ اس کو گوارا ہوتا تھا لیکن نسبتاً طویل راستے اور صاف رستے سے اس کو جانے میں بخار چڑھ جاتا تھا مگر رکشہ والوں کی یہ پالیسی اب جا کر سمجھ میں آئی ہے وہ بھی اس طرح کہ جب اپنے اوپربیتی ہے‘اب تو ہم بائیک سمیت گھرسے نکلنے سے پہلے راستے کا تعین گھر میں خیال کی دنیا میں کھوکر کرتے ہیں‘اس لئے کہ کون سا راستہ شارٹ ہے پہلے جلدی ہوتی تھی کہ صاف اور لمبی راہ سے اپنی منزل پر جلد پہنچ جائیں مگر اب تو ہر چیز کا حساب رکھنا پڑتا ہے‘جتنا پٹرول ٹینکی میں ہے کیا اس سے کام چل جائے گا یا گاڑی ہماری راستے میں رک جائے اور پھراسے گھسیٹ کر پٹرول پمپ لے کر جانا پڑے کیونکہ خیر سے پٹرول کی گرانی نے توآٹھ آٹھ آنسو رُلانے پرمجبور کر دیاہے اب تو ہم خود بھی اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں جس پر جاتے ہوئے پٹرول کم سے کم خرچ ہو‘ بھلے اس طرف رش ہو مگر
یہ توہوگا کہ پٹرول کا فالتو ضائع چلے جانا تو نہیں
ہوگا کیونکہ پٹرول کے ایک ایک قطرے کی اہمیت ہے بلکہ گھر سے نکلنے کی ضرورت ہی کیا ہے‘گھرمیں بیٹھے رہو‘ جب جانا ہوا تو سارے کام اکٹھے کرکے ایک ہی تیر میں دس دس شکار کرلیں گے‘پٹرول پمپ پر تیل ڈلواتے ہوئے کبھی ہم نے اور دوسرے شہریوں نے میٹر کے نمبروں کی طرف نہیں دیکھا تھا آج کل تو کم از کم سو کا پٹرول بھی ڈلواؤ تو بائیک سوار ایک ہاتھ میں ٹینکی کا ڈھکن پکڑ کر میٹر کی طرف دیکھتا ہے اس لئے کہ سو کا پٹرول ہے اور اس میں بھی اگر کوئی غبن کرلے گا تو ہم گھر تک کیسے پہنچ پائیں گے‘گرانی نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا اور پٹرول کے مہنگاہونے نے تو کمر ہی توڑدی ہے‘ہمارے ساتھ تو یہ واقعہ اکثر پیش آیا ہے کہ راستے میں بائیک رک جاتی ہے‘ جانے انجن کا مسئلہ ہے یا کوئی اور بات ہے کہ ہماری موٹر بائیک زیادہ پٹرول کھانے لگی ہے پہلے پہل پٹرول جتنا بھی مہنگا ہوا ہم سو کاڈال لیتے مگر اب تو کم ازکم دو سوکا ہو تو کام چلتا ہے مگر معلوم نہیں کیا بات ہے کہ عین چوراہے میں اس زمینی جہاز کا انجن فیل ہوجاتا ہے پھر دوسرے شہریوں کے عین درمیان میں سے اس کوگھسیٹنا پڑتا ہے پھر یہ ایک دن کی بات تو نہیں رہی اب تو نامرادی کا یہ عالم ہر ہفتہ ہوتا ہے کبھی غلط طور پرذہن میں ہوتا کہ کل ہی تو میں نے پٹرول ڈالا تھا‘ بھلا پٹرول کیوں ختم ہوگا مگر جب بائیک عین موقع پر رش کے درمیان میں دھوکا دے جائے تو ساری یادداشت واپس آنے لگتی ہے کہ اوہو پٹرول میں نے پرسوں ڈالا تھا اور تین سو کا تھا پھر جو ہوتا ہے اس پر مجال ہے کہ شرمندگی ہو نے پائے کیونکہ جو سب کا حال وہ ہمارا حال۔ہم ہی تو اس دنیا کے اکیلے رسوا نہیں یہاں تو ہم جیسے دیوانے اور بھی ہیں جو بائیک کو گھسیٹ کر لے جارہے ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کے چہروں پربھی تفکر کے آثار ہوں کیونکہ سب شہریوں کا ایک ہی حال ہے بندہ بندہ پریشانی کا شکار ہے مہنگائی کا تیر جگرکے پار ہے‘پٹرول کی مزید گرانی کی باز گشت ہے اور ہمارے کان ہیں کہ جیسے ان میں میخیں ٹھونکی جا رہی ہوں‘کسی کل قرار نہیں ہے‘مہنگائی مہنگائی اور مہنگائی‘چاروں سمت سے یہی آوازیں ہیں لوگ جیسے زخموں سے چور ہیں اور کراہ رہے ہیں‘رکشہ والوں نے بھی اپنا الگ سا انداز اختیار کر رکھا ہے
‘ڈالتے ارزاں سی این جی ہیں اور کرایہ پٹرول والاحاصل کرتے ہیں‘ذرا انکارکرو تو ان کی بلاکو بھی پروانہیں ہوتی وہ چلتے بنتے ہیں‘ان کو معلوم ہے کہ شہری مجبور ہیں‘ضرور مہنگے نرخ پرہا ں کر کے اس میں سوا رہو جائیں گے۔ایک بے چینی کا عالم ہے‘ جانے کب دور ہو؟ہم کس طرف جا رہے ہیں کسی کو کیا معلوم ہو یہ بند گلی کا سفر ہے‘ آگے جا کر اس کی کوئی منزل نظر نہیں آتی‘بس بائیک کو ڈیوڑھی میں کھڑی کر کے اس پر کپڑا ڈال دو تاکہ دھول مٹی سے بچ جائے وگرنہ تو اس کا کچھ فائدہ نظر نہیں آتا‘ بچے کھیلیں اور کھڑی بائیک کو اپنے بچگانہ انداز ہے چلاتے پھریں منہ سے انجن کی آوازیں نکالیں کیونکہ اس کا اور توکوئی مصرف نہیں ہے‘جیسے اب سونے کے نرخ آہستہ آہستہ نیچے آ رہے ہیں اسی طرف پٹرول کو بھی سستا ہوناچاہئے اس کے نرخ جو آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں اب زمین والوں سے باتیں کریں‘پہلے گھرکی ڈیوڑھی میں پٹرول کی اضافی بوتلیں بھری ہوئی پڑی ہوتی تھیں یوں کہ کوئی مہمان آیاتو اس کا پٹرول اگر اس کے پاس نہ ہوا تو اس کو تحفے کے طور پر سو روپے والی بوتل دے دیتے اچھا خاصا پٹرول ہوتا تھا اب تو ہم اضافی بوتل اگر اپنے لئے بھی رکھ لیں تو بہت زیادہ بڑی بات ہوگی‘اب توٹینکی ہی میں پٹرول نہیں ہوتا کہ اپنے ہی کام آ سکے‘چلو وہ دن نہیں رہے تو یہ دن بھی نہیں رہیں گے۔