امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کے پرائمری انتخابات ہو رہے ہیں جن کے ذریعے ایوان نمائندگان، سینیٹ، ریاستی اسمبلیوں اور ریاستی گورنروں وغیرہ کے امیدوار چنے جارہے ہیں‘سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان انتخابات کو اپنے ان دس مخالفین کو سزا دینے کا موقع سمجھ رہے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا‘کانگریس کے ان دس ری پبلکن ارکان میں چار ٹرمپ کی سخت مخالفین کانگریس سے ریٹائر ہورہے ہیں، چار پرائمری انتخابات میں ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدواروں سے شکست کھا چکے اور صرف دو جیت سکے‘ٹرمپ نے اب تک وسط مدتی انتخابات میں 235 امیدواروں کی حمایت کی ہے جن میں سے 92 فیصد جیت چکے ہیں‘ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار، جنہوں نے 2020 ء کے صدارتی انتخابات بارے ان کے دھاندلی بیانیہ کا ساتھ دیا تھا،واضح رہے یہ ساری وہ ریاستیں تھیں جنہوں نے 2020 ء کے انتخابات کا فیصلہ کیا اور جو 2024 کے صدارتی انتخابات میں اہم کردار ادا کریں گے‘مبصرین نے پرائمری انتخابات میں سیاسی اور انتخابی نظام پر یقین نہ رکھنے والے اور ان پر شک کرنے والے ٹرمپ کے ان حامیوں کی جیت کے بعد کہا ہے کہ امریکی عوام کو اس سال نومبر میں وسط مدتی انتخابات میں پارٹی وابستگی سے بالاتر رہتے ہوئے ان منکرین کو ہرانا چاہیے واضح رہے لز چینی، جو سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی کی صاحبزادی ہیں، کیپٹل ہل پر چھ جنوری 2020 ء کے حملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی نائب چیئرپرسن بھی ہیں‘کمیٹی کے مطابق ٹرمپ نے دھاندلی کا جھوٹا بیانیہ گھڑا، اٹارنی جنرل کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکامی پر محکمہ انصاف کو انہیں ہٹانے کی ہدایت دی، نائب صدر مائیک پنس پر نتائج روکنے کیلئے دبا ڈالا، ٹرمپ کے طرزعمل سے اختلاف کرتے ہوئے کئی سرکاری اہلکاروں نے استعفے دئیے اور سیکرٹری خارجہ اور سیکرٹری خزانہ سمیت کئی کابینہ ارکان نے صدر ٹرمپ کو آرٹیکل 25 کے تحت عہدے سے اتارنے پر غور کیا۔ ناقدین کے مطابق خطرے کی بات یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے حامی رائے دہندگان صدر ٹرمپ کے دھاندلی کے ”جھوٹے بیانیہ“پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی جانب سے نظام سے بغاوت، نتائج الٹنے کی سازشوں اور جھوٹے سازشی نظریات پھیلانے سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں‘انہیں ٹرمپ کی مخالفت کی قیمت کا پتا تھا مگر انہوں نے اصولوں کی خاطر اس سے واضح ٹکر لی‘ جبکہ دوسرے بہت سے ری پبلکن ارکان ٹرمپ کے خوف سے خاموش رہے‘ری پبلکن پارٹی اور امریکہ میں ٹرمپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ری پبلکن پارٹی کے کئی رہنما پیش گوئی کرچکے ہیں کہ اگر ٹرمپ 2024 ء میں دوبارہ صدارت کیلئے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ری پبلکن نامزدگی جیت لیں گے‘سچ یہ ہے کہ رائے دہندگان ان کے جارحانہ طرز سیاست کے گرویدہ ہیں؛ توقع کی جارہی ہے کہ ان کی وجہ سے ری پبلکن پارٹی ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں کنٹرول سنبھال لے گی اور اس طرح کانگریس کے دونوں ایوانوں میں جو بائیڈن کے قانون سازی کے ایجنڈے کو روکنے اور اسکی انتظامیہ کو سیاسی طور پر نقصان دینے کی پوزیشن میں آجائے گی‘لز چینی بظاہر شکست کھا چکیں مگر انہوں نے جھوٹ کے بجائے سچ کا، پارٹی کے بجائے اصولوں کا اور ٹرمپ کے بجائے آئین اور نظام کا ساتھ دیا‘پریشان کن امر یہ ہے کہ مختلف سرویز کے مطابق ری پبلکن پارٹی کی اکثریت سازشی نظریات، تنگ نظری، عدم برداشت، دھاندلی کے جھوٹے بیانیہ اور سفید فام بالادستی کے حامی و علمبردار ہیں‘ انہیں صرف وہ جمہوریت منظور ہے جس میں وہ جیت لیں اور ان کی حکومت بن جائے ورنہ پھر دھاندلی ضرور ہوئی ہوگی۔پرائمری انتخابات کا طریقہ چونکہ امریکی ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا ہے اس لیے مختلف ریاستوں میں اس کا انداز اور طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کچھ ریاستوں میں کھلے پرائمری انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کے شہری ان میں کسی بھی پارٹی امیدوار کو چن سکتے ہیں جبکہ چند ریاستوں میں بند یا محدود انتخاب کا طریقہ ہوتا ہے اور شہریوں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ خود کو کسی پارٹی کے ووٹر کے طور پر رجسٹر کریں۔