ایک اور سرد جنگ

محسنوں کو کیا اس طرح بھلایا جاتا ہے کہ جس طرح سردار اورنگزیب خان گنڈاپور کو بھلا دیا گیا ہے۔ ان کے نام پر نہ تو کوئی عمارت ہے نہ کوئی روڈ‘ خیبر پختونخوا کے اس فرزند نے تحریک پاکستان کے دوران لندن میں ہونے والی دوسری گول میز کانفرنس میں اس وقت کے صوبہ سرحد کی نمائندگی کی تھی وہ ان پانچ اراکین مسلم لیگ میں بھی شامل تھے جنہوں نے لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب بھی کیا تھا اور اس میں پیش ہونے والی قرارداد پاکستان پر دستخط بھی کئے تھے۔انہوں نے تین سال کے عرصے کے دوران سرحد میں مسلم لیگ کو مضبوط کیا جس کی وجہ سے صوبے میں مسلم لیگ کی پہلی حکومت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ سردار صاحب کلاچی میں پیدا ہوئے۔سردار اورنگزیب گنڈا پور جیسے رہنما بہت کم پید ا ہوتے ہیں۔اب آتے ہیں تازہ ترین واقعات کی طرف جہاں حکومت نے ملک میں زرعی اصلاحات کرنے کا جو فیصلہ اگلے روز کیا ہے وہ ایک صائب فیصلہ ہے پر اس ضمن میں کچھ بنیادی اقدامات کی ضرور ت ہے امید ہے حکومت انہیں ضرور مد نظر رکھے گی۔

 لگثرری اشیاء کی درآمد پر پابندی کے بارے میں ملک میں دو قسم کی آرا پائی جاتی ہیں بعض لوگوں کے خیال میں تو لگثرری اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہئے کیونکہ اس پر زر مبادلہ کی ایک کثیر رقم ضائع ہوجاتی ہے اور ملک کے عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے بعض لوگوں کے خیال میں لگثرری اشیاء کی درآمد پر اگر زیادہ سے زیادہ ڈیوٹی لگا دی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ انہیں درآمد کیا جائے۔بین الاقوامی منظر نامے پراس وقت دیکھا جائے تو کشیدگی اور بے چینی کا غلبہ ہے۔ایک وقت تھا کہ دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی اور سرد جنگ کازمانہ تھا۔ پھر سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ سرد جنگ کاخاتمہ ہوا ور امریکہ کو اکلوتی عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا اورا س نے کئی ایسے ممالک کو جو سوویت یونین کے دوست تھے ان کو ایسا کمزور کیا کہ وہ آج تک نہیں سنبھل سکے۔ اس کی ایک مثال لیبیا کی ہے۔کیا آپ کو پتہ ہے کہ کرنل قذافی کے دور میں لیبیا کے تمام عوام کو مفت بجلی فراہم کی جاتی تھی اور بجلی کا بل نامی کوئی چیز وہاں پر نہ تھی۔

کرنل قذافی کے دور میں کسی بھی قرضے پر کوئی سود نہیں لیا جاتا تھا تمام بنک سر کاری ہوا کرتے تھے اور صفر سود کی بنیاد پر قانونی طور پر قرضے فراہم کیے جاتے تھے۔ لیبیا کے ہر شہری کا یہ انسانی حق تصور کیا جاتا تھا کہ اس کا اپنا گھر ہو،تمام نئے شادی شدہ جوڑوں کو شادی کے موقع پر پچاس ہزار امریکی ڈالر کے حساب سے پیسے فراہم کیے جاتے تھے کہ وہ اپنے لیے پہلا اپارٹمنٹ خریدیں اور اس طرح اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں،تعلیم اور طبی علاج مفت تھا،قذافی کے اقتدار میں آنے سے پہلے وہاں پر شرح خواندگی صرف 25 فیصد تھی جبکہ جب انہیں ہٹایا گیا تو وہ 83 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ اس وقت لیبیا متحارب دھڑوں کے درمیان بٹا ہوا ہے اور یہاں پر عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔سچ ہے کہ امریکہ نے کہیں بھی امن و خوشحالی کو نہیں بلکہ جنگ اور غربت کو فروغ دیا ہے۔اس وقت ایک بار پھر امریکہ نے ایک طرف روس کے ساتھ یوکرین میں جنگ چھیڑ دی ہے اور دوسری طرف چین کے ساتھ تائیوان کو محاذ جنگ میں بدلنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے دیکھئے اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔