خیبرپختونخوا میں پولیو کی حالیہ مہم چھ اضلاع بنوں، لکی مروت، شمالی اور جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں شروع کی گئی ہے جس میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے موذی مرض سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلائے جائیں گے۔پولیو کے حوالے سے یہ بات لائق توجہ ہے کہ رواں برس کے دوران پاکستان میں اب تک پولیو کے 14 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جو سب کے سب خیبرپختونخوا ضم شدہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں رپورٹ ہوئے ہیں جومتعلقہ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے لیئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔واضح رہے کہ ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے پولیو کیسز کے سبب اس مہم کی کامیابی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پولیو وائرس سے نہ صرف زندگیوں کو خطرات ہیں بلکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا بھر سے توپولیو کو ختم ہوئے دہائیاں گزرگئی ہیں لیکن پاکستان کاشمار ان دوچار بدقسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں اب تک پولیو کو ختم نہیں کیاجاسکاہے۔
طبی ماہرین کاکہنا ہے کہ بچوں کو پولیو کے سبب اموات یا عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لیے انہیں بار بار پولیوکے قطرے پلانا ضروری ہے تاکہ ان بچوں میں قوت مدافعت پیدا کی جاسکے۔ صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان ان 4 ممالک میں شامل ہے جہاں وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی) کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں افغانستان، موزنبیق اور ملاوی شامل ہیں۔افسوسناک امریہ ہے کہ اس سال پاکستان میں سامنے آنے والے تمام پولیو کیسز شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے ہیں، رپورٹ ہونے والے 11 کیسز میں سے 8 کا تعلق صرف میر علی کے علاقے سے ہے۔
اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس پر قابو پانے میں ناکامی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ امن و امان کی پیچیدہ صورتحال ہے جس کے نتیجے میں تمام بچوں تک پولیو ٹیموں کی عدم رسائی، تمام بچوں کو قطرے پلانے میں ناکامی اور مہم کے دوران دیگر انتظامات بھی ناقص ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ انسداد پولیو مہمات پوری دنیا میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں اور اب 99 فیصد سے زیادہ دنیا پولیو سے پاک ہوچکی ہے البتہ پاکستان اور افغانستان دوایسے پڑوسی ممالک ہیں جن میں اب بھی پولیوکاناسورپایاجاتا ہے لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ ان دونوں ممالک نے مئی اور جون میں انسداد پولیو کی دو مہموں کو ہم آہنگ کیا ہے اور بین الاقوامی سرحدوں پر تمام عمر کے بچوں کو قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ تمام اہم ٹرانزٹ پوائنٹس پر 10 سال سے کم عمر کے بچوں کی ویکسینیشن کو یقینی بنا یا جا رہا ہے۔
پولیو کے درپیش چیلنج پرگفتگوکرتے ہوئے ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے اور بنیادی طور پر 5 سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔یہ وائرس اعصابی نظام میں داخل ہو کر فالج اور موت کا سبب بنتا ہے، اگرچہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن بچوں کو معذور کردینے والی اس بیماری سے بچانے کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسینیشن ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد اور لاہور سے 16 ماہ کے وقفے کے بعد جمع کیے گئے سیوریج کے نمونوں میں بھی پولیو وائرس رپورٹ ہوا ہے حالانکہ مارچ 2021 میں ان دونوں شہروں کو پولیو سے پاک قرار دیا گیا تھا۔رپورٹس کے مطابق اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی، پشاور، بنوں، نوشہرہ اور سوات میں بھی نمونے مثبت پائے گئے ہیں۔یہ نمونے 18 سے 20 جولائی تک اکٹھے کیے گئے اور ٹیسٹ کے لیے پولیو وائرولوجی لیب میں بھیجے گئے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ چونکہ یہ وائرس دوبارہ اسلام آباد اور لاہور تک پہنچ گیا ہے اس لیئے ہمیں ان ساتوں شہروں سے پولیو کیسز کے لیے تیار رہنا چاہئے۔دوسری جانب وفاقی وزیر برائے صحت عبدالقادر پٹیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت وائرس کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی تیار کی ہے۔