روشن دان سے 

گزرے ہوئے دن قبل از دوپہر جانے کیسے بارش شروع ہوئی اور کیسے جلد اختتام پذیر ہوگئی۔ پندرہ منٹ میں کھیل شروع ہونے کے آثار اور پھرکھیل شروع اور کھیل ختم۔بارش اپنے پیچھے حیرانیاں چھوڑ گئی۔ قدرت کے کاموں میں ”حیرانیاں تو ہوتی ہیں“۔ابھی کے ابھی گرمی اورحبس موڈ خراب مگر اچانک شرار کی آواز ابھری تو روشن دان کی طرف نگاہ گئی کہ جیسے اوپر چھت پر پانی کی ٹینکی بھر گئی ہو اور اس کا فالتو پانی روشن دان کے پاس سے نیچے گر رہاہو۔ مگر وہ شرار موسلادھار بارش کے روپ میں اچانک ہی بدل گئی۔ جیسے کسی کی قسمت اچانک بدل جائے کچھ ایسا ہی ہوا۔حبس اور گرمی کے مارے برا حال تھا۔مگر اچانک کمرے کے روشن دان کے باہر باغ میں درختوں نے جھولنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش اور پھر ایسی بارش کہ قدرت کے وجود پر بے شمار دلیلوں کے اوپر ایک اور دلیل۔قسمتیں یونہی اچانک بدل جایا کرتی ہیں۔ساتھ بادل بارش اور وہ بھی تیز اور پل جھل کے بعد دھوپ۔مگر اب کے دھوپ میں وہ تڑپ اور کسک نہ تھی جو زمین پر سانس لینے والے شہریوں کو ستانے کی وجہ بنتی۔پشاور کے ہلال رفیق کا شعر تڑپانے لگا ”دھوپ کے موسم میں بھی کچھ بارشیں پیہم رہیں۔یہ مری آنکھیں کہ وصلِ یار میں بھی نم رہیں“۔

موسم کااثر انسان کے دل ودماغ پر لازمی طور پر ہوتا ہے۔وہ چہرے جو کملائے ہوتے ہیں او رموڈ مرجھائے ہوتے ہیں موسم کی تابانی اس کی ٹھنڈک سے اچانک کھل اٹھتے ہیں۔ پھر از سرِ نو زندگی سے دل چسپی ہونے لگتی ہے۔”بارش ہوئی تو گھر کے دریچوں سے لگ کے ہم۔چپ چاپ سوگوار تمھیں سوچتے رہے“۔پھر وہ شعر کہ ”روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو۔کچی مٹی تومہکے گی ہے مٹی کی مجبوری“۔ یہ بھی کہ ”تیز بارش سے زمیں پر بلبلے بنتے رہے۔اور میں اپنے ادھورے خواب میں کھویارہا“۔یہ بے موسم کی بارشیں اور پھر پیہم لگا تار مسلسل یہ موسمیاتی تبدیلیاں حیران کن تو ہیں مگر خطرنا ک ضرور ہیں۔ کیا دنیا کا موسمی زاویہ بدل رہا ہے جو ناران میں اچانک شرار کی آواز نیچے اتری لوگوں نے پہاڑ کی جانب دیکھا تو وہاں سے ایک خطرناک سیلابی ریلا نیچے زمین پر آن کرسانپوں کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔جانے کب کہاں یہ سیلابی ریلا کسی دریا میں اچانک سے جل تھل مچا دے ہل چل مچا دے اس بات کاخیال رہے۔

وہ شعر اگر ذہن میں آ رہا ہے اور میں اسے سپردِ قلم نہ کروں تو مجھ پرالزام ہوگا ”یونہی موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا ہے۔کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں“ واہ جی احمد فراز۔موسم کی تبدیلیاں ہمارے ہاں تو کچھ زیادہ ہی واقع ہونے لگی ہیں۔بلوچستان تو اس تبدیلی کے اثرات کی زد میں ہے۔مون سون پری مون ہوا پھر ساون۔پھر ساون گذرا تو بھادوں کی بارش نے بھی اودھم مچا دیا۔ہمارے پشاور کے باشندوں کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو دہائیوں سے ہے۔وہ یہ کہ ہمارے ہاں مون سون کی بارشیں کیوں نہیں ہوتیں۔ مگر پیاروں کویہ معلوم نہیں کہ پشاور سے نوشہرہ تک کا علاقہ خدا کی قدرت ہے کہ مون سون کے زون میں نہیں آتا۔دور دراز اور اطراف وجوانب بارشیں ہوں گی مگر پشاور سوکھا رہے گا۔مگر پشاو رکو بھی یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ اس کا بچا کچھا سہی مگراپنا حصہ کسی نہ کسی طریقے سے مل ہی جاتا ہے۔اس سال تو تپتے صحراؤں میں بھی بارشیں ہوئیں اور ایسی ہوئیں کہ وہاں کے خالی جام بھر گئے تو پھرریگزار اگر گیلے بھیگے اور تر ہو جائیں تو قدرت ہمارے شہرِ گل پر مہربان تو ہوگی۔ 

سو اس سال ہمیں وہ گرمی کی شدت نہیں ستاپائی جو پچھلے سال واقع ہوئی تھی اس سال تو رمضان بھی اپنی شاندار آن بان سے ٹھنڈا گذرا۔بارش نے جب گذشتہ روز سب کچھ تہہ وبالا کر دیا تو اس کے بعد آسمان یوں صاف ہوگیا جیسے کسی بچے نے سلیٹ پر لکھ کر یا اپنی تختی پر لکھی ہوئی عبارت سکول کی ٹینکی کے نلکے نیچے دھوکر صاف کر ڈالی ہو۔سبزہ تو دھل کر نکھر گیا ہے اور سڑکوں کوبھی صفائی کے عملے کے کارکردگی کی ضرورت نہ رہی۔گلی میں بارش کے ہوتے ساں ہی بچوں نے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر خوشی کے مارے شور کرنا شروع کر دیا اور گھروں کے چھتوں کے پرنالوں میں سے نیچے آبشار کی صورت تیز دھار پانی کے فوارے تلے اپنے کپڑوں ہی میں کھڑے نہانا شروع کر دیا۔