مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا اور اس نے اب مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب اور حق رائے دہی کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے نیا قدم اٹھایا ہے جس کے مطابق مقبوضہ وادی میں موجوود بھارتی فوجیوں، باہر سے تعینات غیر مقامی پولیس اور مقبوضہ وادی میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر مقامی طلبہ کو بھی ووٹ کا حق دیا گیاہے جس سے اب یہاں پر غیر مقامی لوگوں کی رائے سے حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار کی جار ہی ہے تاکہ مقبوضہ وادی کے باسیوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے۔ مقبوضہ وادی میں تازہ ترین مودی حکومت کے اقدام سے نہ صرف مقبوضہ جموں کشمیر میں عوام مشتعل ہوگئے ہیں کیونکہ مقبوضہ وادی میں تعینات پولیس او ر فوج کے غیر مقامی افراد اور طلبہ کو ووٹ کا حق دینے سے مقبوضہ کشمیر میں ہندو توا ایجنڈے کو مسلط کرنے کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہاں پر مقامی کشمیریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا ہے واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو انڈین پارلیمان نے جموں کشمیر تنظیمِ نو بل منظور کیا تو اس کے مطابق جموں کشمیر کا عوامی نمائندگی قانون منسوخ ہو گیا۔
اس قانون کے مطابق یہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے یا الیکشن لڑنے کے لیے جموں کشمیر کا مستقل باشندہ ہونا لازمی تھا۔ اب انڈیا کے وفاقی قانون برائے عوامی نمائندگی کو پورے ملک کی طرح جموں کشمیر میں بھی نافذ کیا گیا ہے۔سابق وزیراعلی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ا س اقدام کے متعلق کہا کہ ایسے اقدامات سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔جبکہ سابق وزیر اعلی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا اس فیصلے کا اصل مقصد آہنی ہاتھوں سے جموں کشمیر پر حکومت کر کے کشمیریوں کو مزید بے اختیار بنانا ہے۔ان کی پارٹی کے کارکنوں نے بھی سرینگر میں اس اعلان کے خلاف مظاہرہ کیا‘ ایک اور مقامی سیاسی جماعت پیپلز کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے کہا کہ یہ فیصلہ 1987 کو دہرانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی مودی حکومت کی طرف سے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کے اس منصوبے پر طوفان برپا ہے اور کہا جارہا ہے کہ 25 لاکھ بھگتوں کو ووٹنگ حقوق کے ساتھ جموں کشمیر بھیجا جا رہا ہے۔اس اقدام کو جس کی مدد سے مقبوضہ وادی میں ہندوتوا ایجنڈے کو مسلط کرنے کا عمل تیز کر دیا گیا ہے کو پاکستان نے مسترد کردیا ہے اور دفتر خارجہ نے انڈیا کے اس تازہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اس اعلان کو کشمیر میں انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلی قرار دیا ہے۔
گزشتہ روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں اور نیم فوجی اہلکاروں سمیت سبھی عارضی باشندوں کو ووٹنگ حقوق دینے کا اعلان انڈیا کے ان عزائم کا مظاہرہ ہے جن کے ذریعہ وہ وہاں ہونے والے نام نہاد الیکشن پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔بیان میں 2019 کے بعد سے انتخابی حلقہ بندی اور دیگر تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دے کر عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیلی کرنے کی برملا کوششوں کا نوٹس لے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی ادارے زبانی طور پر تو مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کرتے رہتے ہیں تاہم عالمی براداری نے کبھی بھی اس حوالے سے موثر قدم نہیں اٹھایا جس کے باعث مودی حکومت زیادہ دلیر ہوگئی ہے اور وہ اب بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے اکثر ممالک کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اور وہ اسے ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کے باوجودد ان ممالک کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جارہی اور یوں مغربی ممالک دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا ہے اور اس تازہ ترین کوشش کو بھی پاکستان نے مقبوضہ وادی میں ڈیموگرافک تبدیلیوں کا مذموم منصوبہ قرار دیا ہے جس کی بھرپو ر مذمت کی گئی ہے۔پاکستان کی بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے حوالے سے بین الاقوامی ادارو ں کی رائے بدل گئی ہے اور کئی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کو اس حوالے سے بد ترین ملک قرار دیا ہے۔ تاہم جن ممالک سے یہ تنظیمیں تعلق رکھتی ہیں وہاں کی حکومتوں کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ عالمی برداری کے اس دوغلے رویے کے باعث مقبوضہ وادی میں بھارت کی قابض فوج کے مظالم میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ بری طرح عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہے۔