پٹرولیم مصنوعات قیمتیں: نظرانداز پہلو

پیٹرول کی قیمت میں حالیہ چھ روپے فی لیٹر اضافہ جبکہ ڈیزل کی قیمت میں تبدیلی نہ کرنے کے باوجود اِس فیصلے کے اثرات قیمتوں میں بالترتیب 7.59 اور 0.21 فیصد اضافے سے کہیں گنا زیادہ مرتب (ظاہر) ہوئے ہیں جبکہ دونوں پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ’جی ایس ٹی‘ بھی نہیں لگایا گیا۔ معلوم ہوا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی ردوبدل بھی اضافی بوجھ بن جاتا ہے اور اِس کا فائدہ اٹھانے والے ہمیشہ ہی سے تاک میں رہتے ہیں جن کے باعث مہنگائی اصل شرح سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پندرہ دن کے دوران پیٹرول کی قیمت میں بنگلہ دیش نے 38.36فیصد کمی کی ہے جبکہ امریکہ میں پیٹرول کی قیمتوں میں قریب 10 (9.9) فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک بنگلہ دیش‘ جو خطے میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی اور اقتصادی ترقی کی شرح کا اعزاز رکھتا ہے۔ تیل‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں کم کر رہا ہے۔ ایسا اِس لئے نہیں کیا جا رہا کہ بنگلہ دیش کو سستے داموں خام تیل مل رہا ہے بلکہ بنگلہ دیش حکومت مہنگے داموں پیٹرولیم مصنوعات خرید کر اُنہیں سستے داموں اس لئے فروخت کر رہی ہے تاکہ اُس کے ہاں کاروباری معمولات اور پیداواری صلاحیت کم نہ ہو۔ روزگار متاثر نہ ہوں اور بنگلہ دیش کی برآمدات میں اضافہ ایک ایسے وقت میں کیا جا سکے جبکہ خطے کے ممالک پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اپنے ہاں کاروباری سرگرمیوں کی رفتار متاثر کئے ہوئے ہیں۔ تاہم جب کوئی ملک توانائی پر رعایت (سبسڈی) دیتا ہے تو اِس سے بہت سے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے کی وجہ سے بنگلہ دیش کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینا پڑا ہے۔  اگر ہم پاکستان کی بات کرلیں تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متاثرہ طبقات انواع و اقسام کے ٹیکسوں کی وجہ سے زیادہ معاشی نقصان اٹھا رہے ہیں اس کے لئے متوازن قیمتوں اور ٹیکسوں کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں لوگ توقع کر رہے تھے کہ چونکہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی آئی ہے اور ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ میں بھی کچھ بہتری ہوئی ہے تو پیٹرول کی قیمتیں نیچے آئیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور سوال یہ ہے کہ آخر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہوئیں؟ ایک ممکنہ وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں دس روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا تھا اور یہ اضافہ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ ہوئے معاہدے کی وجہ سے ہے جس کے تحت پی ایل ڈی کو ہر ماہ 10روپے فی لیٹر بڑھانا ہوگا جب تک کہ یہ 50روپے فی لیٹر تک نہ پہنچ جائے۔ دوسرا نئی قیمتیں اوسط قیمتوں اور گزشتہ پندرہ دنوں کی شرح مبادلہ پر طے ہوں گی۔ اِن دونوں متغیرات میں بتدریج بہتری آئی ہے‘ اس لئے پندرہ دن کا اوسط اضافہ حالیہ دنوں میں ہونے والی بہتری سے کم ہے‘ خاص طور پر شرح مبادلہ کے معاملے میں۔ تیسرا اگرچہ لوگ خام تیل کی قیمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں کم از کم مختصر مدت میں اسی تناسب سے کمی ہو۔ چوتھا جب ہم پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ عالمی منڈی میں قیمتوں سے کر رہے ہوتے ہیں تو اِس فرق کے پیچھے عوامل کی درست وضاحت نہیں کرتے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور مہنگائی کا براہ راست تعلق ہے۔ تجویز ہے کہ پالیسی ساز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تمام تر دھیان (توجہ) مرکوز کرنے کی بجائے قیمتوں میں کمی کے مواقع کا بھی تجزیہ کریں اور جائزہ لیں۔ خاص طور پر جب زیادہ پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ قیمتیں مہنگائی کے سبب سیاسی اور سماجی مسائل کا باعث بن رہی ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک طرح سے معاشری بحران ہے جس کے اثرات تمام ممالک پر مرتب ہورہے ہیں اور پاکستان نے ان حالات میں بھی جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بحران کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔پھر بھی اس حقیقت کا ادارک ضروری ہے کہ معاشی استحکام اور ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے پر ہی اسے حقیقت سمجھا جاسکتا ہے۔پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی اگر چہ بین الاقوامی عوامل کے زیراثر ہے تاہم کمی کی صورت میں عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنا اور قیمتوں میں اضافے کی صورت میں مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے۔