آہستہ آہستہ جن مشینوں کو سپیئر پارٹس کی سہولت میسر نہیں ان کو بھی خراب ہوجانے پر ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔حتیٰ کہ انسانی جسم میں پیوند کاری کے ذریعے نئے اعضاء نصب ہو سکتے ہیں۔یہ اس لئے اچھا ہے کہ ہماری سب سے نازک چیز ناک ہے جو ذرا ذرا سی بات پر کٹ جاتی ہیں۔ اگر انسانی سپیئر پارٹس دستیاب ہوگئے تو ناک کٹ جانے کا مس ئلہ حل ہو جائے گااور کسی کو جگر بھی پیوند لگا کر دیا جا سکتا ہے۔آنکھیں عطیہ کی جا سکتی ہے۔ خون دیا جاسکتا ہے ابھی میں نے پرسوں 139وی بار خون کا عطیہ دیا ہے۔جب گردہ دیا جا سکتاہے تو آنے والے زمانے میں جانے کیا کیا ہونے والا ہے۔کون کون سے اعضا کی پیوند کاری ممکن ہوگی۔ وینٹی لیٹر پر سانس مہیا کر کے چھریوں قینچیو ں کے ساتھ دل کی رگوں کو کاٹ کُٹ کے جمے خون کے لوتھڑے والے ٹکرے پھینک کر دوسرے جوڑ کر خون کو رنگ روڈ کی ٹریفک کی طرح رواں رکھنے کو دوسرے راستے سے بائی پاس کر لیتے ہیں۔ویسے انسان کا دماغ بھی عجیب چیز ہے۔زہر ہے تو اس کا علاج بھی زہر سے کرتا ہے۔سانپ کے زہر ہی سے سانپ کا تریاق بنتا ہے۔یوں کہ بچھوؤں کو بوتل میں بند کر کے اس کا عرق نکال کر بیماریوں میں بطورِ دوا استعمال کرتے ہیں۔ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمارے رشتے کے انکل نے کہا ادھر آ اوئے تمہیں ایک چیز دکھاتا ہوں۔میں آگے ہوا تو انھوں نے الماری کا دروازہ کھولا۔گھر والوں کے بیچ میں اچار کی ایک خالی بوتل لے آئے۔بند بوتل ہمارے آگے کر دی۔اس کے شیشے میں دیکھا تو بچھو پڑا تھا۔اب یاد نہیں زندہ تھا کہ مردہ تھا۔مگر میں نے بندر کی طرح یوں الٹی چھلانگ لگائی ان کے گھروالوں پر گرتے گرتے بچا۔گھر والوں کو تو پتا تھا کہ انکل جی گھر میں نئے آنے والوں کو کیا دکھلاتے ہیں۔ اس وقت خوف کے عالم میں ایک جھرجھری سی میرے پورے بدن میں دوڑ گئی۔پشاور شہر میں تو بچھو بہت تھے۔مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ کراچی کے مچھر اور پشاور کے بچھو ایک برابر ہیں۔پھر انگریزوں کے دور میں منشی گوپال داس نے جو پشاور کی تاریخ لکھی اس میں بچھوؤں کا ذکر کیا ہے۔ کچے گھر تھے بجلیاں تھیں نہیں۔ا س نے لکھا ہے نیچے دروازے میں گوشت کے تکوں والی باربی کیو طرز کی سیخ پڑی ہوتی تھی۔ بندہ وہ لے کر اوپر گھر کی سیڑھیاں چڑھتا۔دیوار پر کہیں بچھو رینگ رہا ہوتا تو اس کو سیخ کی نوک میں ترازو کر لیتے یا کہیں اوپر ایک آدھ اور نظر آیاتو اس کو بھی اسی سیخ میں پرو لیتے۔کچھ ماہ پہلے صوابی کے علاقے میں زمین کے گڑھوں میں سے بچھو نکال نکال کر بیچنے کا کاروبار شروع ہوگیا تھا پھر جب بچوں کو بچھوؤں نے کاٹا تو سرکاری وردی والوں کی مداخلت پر یہ کاروباری گرفتارہوئے۔پھر کیا ہوا معلوم نہیں لیکن اندازہ ہے کہ یہ روزگار ابھی جاری ہوگا۔ لوگ سرخ بچھو کی تلاش میں تھے زرد تو تیرہ ہزار میں فروخت ہو جاتا اور لال کی قیمت ایک لاکھ تھی۔وہ اسی لئے کہ اس سے دوائیں بنتی ہیں۔سنا ہے کہ کینسر کے علاج میں کام آتی ہے۔دور نہ جائیں ابھی دو دن پہلے نیوزمیں تھا کہ بچھو سمگل کئے جارہے تھے اور سمگلروں کو دھر لیا گیا۔سوال ہے بچھوؤں کی سمگلنگ سے ان کو کیا ملتا ہے۔ہمارے مرحوم انکل کو بھی نت نئی دوائیں بنانے کا شوق تھا۔ ابھی ایک دن قبل ایک بچی کو بچھونے کسی شہر میں کاٹا تو اس کی دوا قریب کی ڈسپنسری میں دستیاب نہ تھی۔دیر ہو جانے پر وہ بچی موت کی آغوش میں چلی گئی۔بچھوؤں کے کاروباری کہتے ہیں کالا بچھو مل جائے توصرف ایک ٹیلی فون کال کریں۔ہم خود آپ تک انعام کی رقم لے کر آئیں گے۔جانے یہ لوگ اتنی خطرناک چیز سے کون کون سی دوا بناتے ہوں گے۔سپیئر پارٹس کی بات ہورہی تھی۔اب تو مشینوں کے کیا انسانوں کے فالتو پرزہ جات دستیاب ہیں۔کیا بات ہے مرزاغالب نے دو سو سال پہلے کہا تھا ”تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے۔لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور“۔سنا ہے کہ ایک بندے کا جگر چار آدمیوں کو لگایا جاسکتا ہے۔بلکہ دوسرا دل لگا لینے کا تجربہ تو سالوں پہلے کیا گیا اور وہ کامیاب ہوا مگر بعد کا علم نہیں کہ اس مریض کا کیا بنا۔