پاکستان کے ذرائع ابلاغ سیاسی موضوعات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اِنہیں چاروں صوبوں میں سیلاب سے متاثرین کی حالت ِزار پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے‘ جو سیلابی آفت سے پیدا ہونے والے بحران جیسا ہی بحران ہے! جاری مون سون بارشوں کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں رہنے والوں کے سروں سے موت اور تباہی کی لہر اونچی اور حاوی دکھائی دے رہی ہیں۔ ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحلوں تک‘ شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب مسلسل تباہی مچا رہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی اور روزی روٹی کے ذرائع تباہ ہو چکے ہیں مال مویشی اور بستیاں بہہ گئی ہیں اور مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس میں زندہ بچ جانے والوں کو خوراک حتی کہ شیرخوار بچوں کے دودھ‘ پانی اور ادویات تک میسر نہیں ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے رونما ہو رہی ہے۔ جس کے لئے پاکستان میں تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ محکمہ موسمیات نے رواں موسم گرما میں اب تک سندھ میں 385 فیصد اور بلوچستان میں 371 فیصد زیادہ بارشیں ہونے سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے ہیں! بارش سے ہونے والی تباہی سے قبل بلوچستان اور سندھ میں بیک ٹو بیک ’ہیٹ ویوز‘ بھی آئیں جس کے بعد غیر موسمی زیادہ بارشیں ہوئیں جن سے تباہی عام ہوئی ہے۔ اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ موسم کی یہ انتہائی صورتیں غربت میں اضافے اور ایک ’نئی غیرمعمولی‘ صورتحال کو جنم دیں گی۔ رواں برس کی بارشوں سے ہر روز مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بلوچستان بظاہر سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جس بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کیا جا رہا ہے‘ اس کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ اب تک آفات سے متاثرہ علاقوں کا نقشہ بنانے یا متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں کرنے کا عمل تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب سے ہوئے نقصانات کے بارے میں صورتحال کے حوالے سے اعدادوشمار ظاہر کئے جائیں تاکہ مستقبل میں اِس قسم کے نقصانات سے بچنے کے لے اقدامات و سفارشات مرتب کی جا سکیں۔ سیلاب ہمیشہ ہی سے اپنے پیچھے ’مہنگے اسباق‘ چھوڑ کر جاتا ہے کیونکہ ہم خاطرخواہ سبق حاصل نہیں کرتے اور مستقبل کے لئے ترقیاتی ترجیحات طے کرتے ہوئے ممکنہ قدرتی آفات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور جو دیہات زمین کے چہرے سے مٹ چکے ہیں ان کو دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہئے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ جو کچھ رواں برس سال ہوا ہے وہ دوبارہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کی سطح پر شہریوں کو اس بارے میں تعلیم دینے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہوگی کہ وہ بدلتی ہوئی آب و ہوا کے مطابق خود کو کیسے ڈھال سکتے ہیں۔ کہاں بستیاں بنائیں اور فصلیں لگائیں‘ جانوں اور مویشیوں کی حفاظت کیسے کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی قدرتی آفت کے دوران کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے۔ اگر تعمیروترقی اور بحالی مقصود ہے تو بدلتی ہوئی آب و ہوا (موسمیاتی تبدیلیوں) کا مقابلہ تیاری سے کرنا ہوگا اور تعمیروترقی یا متاثرین کی بحالی کے عمل میں موسمیاتی تبدیلیوں کو بنیادی توجہ د ینا ہوگی۔