اس وقت جو سیاسی گرما گرمی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم میں تحمل و برداشت کا مادہ ختم ہونے کو ہے۔جبکہ موجودہ نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی رہنما ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دیں، کیونکہ اس کی عدم موجودگی میں ڈائیلاگ کا راستہ مسدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی ابتری سے نکلنے کے لئے سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے لیکن جب تک سیاسی قیادت اس امر پر متفق نہ ہو تب تک یہ ملک معاشی بحران سے باہر نہیں نکلے گا، اختلافات اور عدم برداشت کوختم کرنا ملک کی ترقی خوشحالی اور بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد آتے ہیں بین الاقوامی منظر نامے کی طرف جہاں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ایک طرف یوکرین میں روس اور مغربی ممالک ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں تو دوسری طرف امریکہ نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ وہ چین کو تائیوان کے مسئلے پر جنگ لڑنے پر مجبور کریگا۔
جس کا یقینا نقصان چین کو اس صورت ہوگا کہ اس کی اقتصادی ترقی جس نے پوری دینا پر دھاک بٹھائی ہوئی ہے بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔اب ایک اور ہم مسئلے کی طرف آتے ہیں جہاں دنیا بھر میں نفسیاتی مسائل اور امراض میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ نفسیاتی مسائل کوہمارے ہاں پر اسرار بیماریاں اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ان سے متعلق معلومات کی کمی ہے۔ عالمی سطح پر ان مسائل کی شرح اتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک انسان خودکشی کرتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ اس طرح کے ذہنی مسائل ہیں۔
ذہنی بیماریوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں ڈپریشن، اینزائٹی، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، بارڈر لائن پرسنیلٹی، اور پی ٹی ایس ڈی وغیرہ عام ہیں، ان کا علاج ادویات اور تھراپی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ہمارے ہاں چونکہ ذہنی مسائل کے حوالے سے کم علمی پائی جاتی ہے اور نفسیات و دیگر نئے علوم سے نا واقفیت عام ہے لہٰذا نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی طرف جاہلانہ اور منفی رویے بھی عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لئے کافی ہیں کہ اجتماعی طور پر ہمارے ہاں معاشرے میں عدم برداشت اوربے حسی عام ہے۔
یہ معاشرتی مسائل بھی ان ذہنی امراض کو جنم دیتے ہیں جبکہ ان مسائل کی دیگر سماجی وجوہات میں گھریلو تشدد، بیروزگاری وغیرہ بھی شامل ہیں، جو ناصرف پہلے سے موجود عارضوں کو شدید کر دیتے ہیں بلکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔ماہرین کی رائے ہے کہ والدین کو چاہئے کہ آج کل کے جدید دور میں جہاں بچوں کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے، ان کی تربیت کے لیے بھی ماڈرن پیرینٹنگ کے طریقے سیکھیں تاکہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ دوستانہ ہو اور بچے ہر موضوع پر والدین سے گفتگو کرسکیں اور ان سے رہنمائی لے سکیں۔
کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بچوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب چونکہ والدین کا رویہ ہی ہوتاہے اس لئے بچوں سے زیادہ والدین کو تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ ماحول کی تشکیل اس طرح کر سکیں کہ بچوں میں ذہنی بیماریوں اور عدم تحفظ کی بجائے خود اعتمادی کا عنصر غالب ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذہنی امراض سے پاک اور ذہنی طور پر مضبوط بچے ہی روشن مستقبل کی نوید ہیں۔