ہماری سوشل زندگی

جو لوگ ایک کونے میں گھس کے بیٹھے ہوتے وہ اپنی غفلت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملنا جلنا نہیں کرتے تھے اور اپنے حساب سے جھوٹی سہی مگر عافیت محسوس کرتے۔وہ لوگ جوپہلے سوشل تھے اور ہر ایک سے ملنا ملانا کرتے تھے۔ کسی کی شادی اور غمی میں جیسے تیسے پہنچ جاتے تھے۔ وہ جو محفلوں کی جان تھے اب موجودہ دور میں کم دکھائی دینے لگے ہیں۔ زندگی کچھ اس ڈھب پر استوار ہو چکی ہے کہ ہر بندہ مصروف ہے یا پھر مصرو ف دکھائی دیتا ہے۔میل جول کم سے کم ہو رہا ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے۔شہر جب ترقی کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتاہے۔شہر کی رسومات ترک کی جا رہی ہیں۔ ان کی جگہ نئے انداز برتے جا رہے ہیں۔ پھر ہمارے شہر سے ہٹ کر باہر کے بڑے شہروں میں تو کچھ اور ہی صورتحال ہے۔ وہاں جہاں چودہ منزلہ عمارت میں ایک پورا محلہ آباد ہوتا ہے۔

جہاں تیس چالیس گھر ایک ہی عمارت میں اوپر نیچے پھیلے ہوتے ہیں۔ہمارے شہر میں لوگ ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے ہیں۔شادی ولیمہ اور میت وغیرہ میں ملاقات ہو تو ہو وگرنہ تو کسی سے کوئی ملتا نہیں۔ہاں موبائل نے ایک دوجے کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔مگر ایک سے دوسرے کو یہی موبائل ہی ملاتا ہے۔مگر وہ بھی تھوڑی دیر کو ملنا ہوتا ہے۔میت کی اطلاع ہو تو لوگ موبائل پر میت کا سوال جواب وصول کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔مگر موبائل پر شادی کی دعوت پر ناراض ہو جاتے ہیں کہ لڑکی یا لڑکے کاپورا گھرانہ میری رہائش گاہ پر آ کر کیوں دعوت دے کر نہیں گیا۔حیران ہو ں کہ ایسا خود غرضی کا دور آیا ہے کہ کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں رہی۔جب پروا ہی نہیں رہی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ واقعی ہمارا شہر ترقی کر رہاہے۔کیونکہ ترقی یافتہ معاشروں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔پھر شادی کی تقریبات میں بھی ایسا ہے۔ 

ولیمہ یا بارات کا کھانا کھایا اور اپنی اپنی فیملی کو لے کر سڑکوں پر رواں دواں واپس لوٹ گئے۔سوشل لائف تو ہمارے ہاں محدود ہی ہوگئی ہے۔کسی جدید آبادی والی کالونی میں اگر جنازہ ہو تو بندے کم اور گاڑیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ایسے میں رش کیوں نہ ہو کہ ایک گاڑی میں ایک بندہ بیٹھا ہو تا ہے۔شہر میں تو ہر جگہ مارکیٹیں اُگ آئی ہیں۔ولیمہ میں کھانا تناول کرو یا بارات کے لئے کسی شادی ہال پہنچو۔کام ختم ہوتے ہی اچھا جی خدا حافظ کہہ کر چپکے سے نکل جاؤ۔ کیونکہ کسی کے پاس وقت ہی نہیں رہا کہ تھوڑی دیر کو وہاں اپنے پرانے جاننے والوں سے گپ شپ لگے بات چیت ہو ایک دوسرے کو دل کاحال کہیں۔ایسے میں شہر میں انسانی زندگی کتنی تنہا ہو چکی ہے۔پھر یہ کہ اگر ایک ہی چھوٹے سے شہر میں کہیں کسی تقریب میں شرکت کرنے کو جانا ہو تو راستے اتنے لمبے ہوگئے ہیں کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے آدھ گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے۔واپسی پربھی اتنی دیر لگتی ہے۔

کوئی دفتر جانا چاہتا ہے مگر نہیں جا پاتا اور کوئی دکان کھولنے کو جانا چاہے تو کڑھتا جلتا رہتا ہے۔انسانی مجبوریا ں خوب آڑے آتی ہیں۔ کیونکہ شہری زندگی میں بہت سے بکھیڑے ہیں جن کی بھگتان کرنا پڑتی ہے۔کسی پروگرام میں کسی سے ہاتھ ملایا نہ ملایا بات کی نہ کی مگر چہرہ دکھلایا اور کھانا ملا تو جلد ہی نوشِ جاں کر کے وہاں سے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔کیونکہ اب فراغت کا وہ زمانہ نہیں رہا۔ ہر بندے کے سو کام ہوتے ہیں۔پہلے گھر کا ایک فرد ہی مصروف ہوتا اور گھر کی گاڑی چل رہی ہوتی اب تو ہر فرد دوڑ دھوپ کرے تو مشکل سے گزر بسر ہوسکتی ہے۔ یعنی غم معاش نے بھی ایک طرح سے سب کو اس قدر مصروف کردیا ہے۔مگراس کے علاوہ آدمی کہیں بیمار ہو اور سست پڑ جائے تو بھی اس سے یہ نہیں ہوپاتا کہ کسی پروگرام میں شرکت کر سکے۔ جوں ذرا اس کی جوانی کی چاندنی ڈھل جائے اور بڑھاپا اعصاب کے دروازے پر دستک دینے لگے تو بندہ کمزور ہو کر زیادہ گیدرنگ سے گھبرانے لگتا ہے۔ایسے میں بھی وہ لوگ جو چابک دستی سے ہر تقریبِ ملاقات میں پہنچ جاتے تھے اب کے یا تو جاتے نہیں یا دیر سے سہی مگر پہنچ کر حاضری کے رجسٹر میں اپنی انٹری کروا لیتے ہیں قابل داد ہیں۔