ذیابیطس کا بڑھتا ہوا مرض 

بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 537 ملین بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ آئی ڈی ایف کی اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بالغ فرد ذیابیطس کاشکار ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ شرحہے۔ اعدادوشمار کے تحت 2021 میں پاکستان میں 33 ملین بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھیجو 2019 کے بعد سے 70 فیصد زیادہ ہے۔ چین 141 ملین اور ہندوستان 74 ملین کے ساتھ دنیا میں ذیابیطس کی شرح کے ساتھ بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔2021 میں ذیابیطس سے پاکستان بھر میں چارلاکھ اموات ہوئیں جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے ساتھ رہنے والے ایک چوتھائی سے زیادہ (26.9%) بالغ افراد کے مرض کی تاحال تشخیص نہیں ہوئی ہے حالانکہ یہ بات باعث تشویش ہے کہ جب ذیابیطس کا پتہ نہیں چلتا یا مناسب طریقے سے علاج نہیں کیا جاتا تو ذیابیطس کے شکار ایسے بافراد کوذیادہ سنگین اور جان لیوا پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہے۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دل کا دورہ، فالج، گردے کی خرابی، اندھا پن اور اعضاء کے نچلے حصے کا کٹ جاناوہ امراض یا پیچیدہ طبی مسائل ہیں جن کے نتیجے میں معیار زندگی میں کمی اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں کئی گنااضافہ ہوجاتاہے۔ماہرین کااستدلال ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح ملکی سطح پر صحت کے لئے ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظروطن عزیز کے چند سینئر ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے ذیابیطس کے مرض کی روک تھام کے لئے ملک گیر سطح پر ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے جس میں تقریباً 10 لاکھ افراد تک رسائی کر کے نہ صرف ان کی سکریننگ کی جائے گی بلکہ ان افراد کومجوزہ پراجیکٹ کے تحت شوگر کی روک تھام کے حوالے سے ضروری معلومات اور راہنمائی بھی فراہم کی جائے گی۔

اس پراجیکٹ میں ملک کے دیہی علاقوں میں ایسے افراد تک رسائی حاصل کی جائے گی جو ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ اپنی بیماری سے لاعلم ہیں۔ اس پراجیکٹ ”سکریننگ آؤٹ ریچ“ کا آغاز پرائمری کیئر ڈائبیٹیز ایسوسی ایشن اور ڈسکورنگ ڈائی بیٹیز ایسوسی ایشن کی مشترکہ کوششوں سے کیا گیا ہے جس نے لوگوں کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش میں دو ماہ کے اندر دیہی علاقوں میں رہائش پذیر لاکھوں افراد کی سکریننگ کا منصوبہ بنایاہے اس پراجیکٹ میں ذیابیطس کے ساتھ رہنے والوں کی صحیح تعداد کو جاننے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ پاکستان میں ذیابیطس کی بڑھتی ہوئے شرح کے حوالے سے جہاں یہ بات پریشانی کی باعث ہے کہ پاکستان ذیابیطس کے مریضوں کے لحاظ سے دنیا کاتیسرا بڑا ملک ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ذیابیطس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پرمشتمل ہے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ اس موذی مرض کے شکار ہیں۔ اسی بے خبری کی وجہ سے صحت کی پیچیدگیاں مذید بڑھ رہی ہیں۔

 ماہرین کے مطابق اس چیلنج کامقابلہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی اور ان کی سکریننگ کے ساتھ ساتھ انہیں اس بیماری کے بارے میں آگاہ کر نے کی صورت ہی میں کیاجاسکتا ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے تیزی سے پھیلاؤ کے ضمن جہاں پہلے سے موجود 33ملین افراد کا اس مرض میں مبتلا ہونا ہے وہاں تقریباً اتنی ہی تعداد کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ لوگ پری ذیابیطس کے شکار ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ افراد بارڈر لائین پر ہیں جوکسی بھی وقت ذیابیطس کے شکار ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین کاکہنا ہے کہ ذیابیطس اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی اور خوفناک بیماری ہے جتنا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں گردوں کی ناکامی اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے سالانہ ہزاروں افراد کی جان لے رہا ہے جب کہ ہزاروں افراد اس بیماری کی وجہ سے پیریفرل نیوروپتی کی وجہ سے اپنے اعضاء کاٹنے پر مجبورہو رہے ہیں۔ماہرین کاکہناہے کہ زیربحثپروجیکٹ ان لوگوں کی مدد کے لیے شروع کیا گیاہے جو ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس خطرناک اور جان لیوا بیماری سے لاعلم ہیں لہٰذا توقع ہے کہ اس منصوبے کے تحت ایک سال میں جب 10 لاکھ افراد کی سکریننگ کی جائے گی تواس کے نتیجے میں نہ صرف اس موذی مرض کی تشخیص ہوسکے گی بلکہ متاثرہ افرادکو اپنے علاج معالجے پر بروقت توجہ دینے میں بھی سہولت ہوگی۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ 40 سال سے زیادہ عمر کے جن افراد کی فیملی ہسٹری میں ذیابیطس کامرض پایاجاتا ہے وہ 0800-66766 ہیلپ لائن پر کسی بھی وقت کال کر کے اس مرض کے بارے میں مفید راہنمائی اور معلومات حاصل کرسکتے ہیں جب کہ مذکورہ پراجیکٹ کے تحت فاسٹنگ اوررینڈم بلڈ شوگر ٹیسٹ کے علاوہ خواہشمند افراد کوٹیلی ہیلتھ کنسلٹیشن کی مفت سہولت بھی فراہم کی جائے گی جب کہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو اس موذی مرض کے خونی پنجوں سے بچانے کے لئے جہاں اپنے بچوں کو غیر صحت مند طرز زندگی اور کھانے کی خراب عادات کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے سکولوں کی سطح پر معلوماتی پروگرامات شروع کرنے چاہئیں وہاں روایتی اور خاص کر سوشل میڈیا سے بھی اس مرض کی روک تھام میں استفادہ کرنا ہوگا۔اب اگر بات کی جائے کہ شوگر کے مریضوں میں اضافے کی تو اس کی بڑی وجہ ہمارا طرز زندگی ہے۔

مرغن غذاؤں اور صحت دشمن عادات نے ہمیں ان بیماریوں کے شکنجے میں پھنسا لیا ہے۔ باقاعدہ ورزش، واک اور جاگنگ کے ذریعے ذیابیطس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ غذائی عادات پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ اس ضمن میں اعتدال وہ  بہترین پالیسی ہے جو کھانے پینے کی ہماری عادات میں جھلکے۔ بے اعتدالی کسی بھی معاملے میں ہو وہ نقصان کا باعث بنتی ہے اور جہاں تک کھانے پینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اعتدال کا دامن چھوڑنا خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ذیا بیطس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنا ہوگا، سستی اور کاہلی کی بجائے متحرک رہتے ہوئے ہم زیادہ صحت مند رہ سکتے ہیں۔ جبکہ آرام طلبی اور کاہلی انسان کو بیماریوں کاشکار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔