جانوروں پر ظلم

تو میں نے دیکھا۔دیکھا بھی تو بعد میں۔ پہلے میں نے سنا اور کیا سنا۔اچانک ایک کھڑکھڑانے والی آواز جو کسی گدھا گاڑی کے پہیوں سے اچانک ابھری‘اس سے پہلے کی آوازکی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتاہوں۔ جب وہ آواز ابھری تو میری نظر دورویہ سڑک کی دوسری جانب گئی۔ چھکڑا گاڑی کے کوچوان نے اپنی سوٹی کھینچ کر گدھے کی کمر پہ ماری تھی۔اس حیوان نے اپنے پچھلے دو پاؤں اٹھائے اور تیز تیز بھاگنے لگا۔ ا ن باتوں کی طرف ہمارا دھیان کم ہی جاتا ہے۔ کسی کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ ان حیوانوں کو خواہ گھوڑے ہوں یا بیل ہو چھڑیوں کے ساتھ بوقتِ ضرورت کہ یہ زیادہ تیز جائیں کیوں پیٹا جاتا ہے۔مانا کہ گاڑی چلانے والا اپنا مطلب نکالنے کو ان پر یہ ظلم روا رکھتا ہے۔مگر آخر یہ حیوان ہیں۔جیتے جاگتے ہیں۔جیسے انسان کے جسم میں جان ہے اور انسان کو یہ لچکدار چھڑی تکلیف دیتی ہے۔ اسی طرح ان حیوانوں کا اگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو آدمی کو خود احساس ہونا چاہئے کہ یہ جانور بھی جسم و جان رکھتے ہیں۔ بندہ چھڑی کی چوٹ سے چیختا ہے مگر جانور تو چیختے نہیں کہ ان میں بولنے کی صلاحیت بھی کہا ں ہوتی ہے۔ان کو
 بھی یہ مار لگتی ہوگی۔ بلکہ بازار میں تو گھوڑا گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں کے سامان سجے ہوتے ہیں۔ جہاں گھنگرو اور باگ اور کیا کیا کچھ نہیں وہاں قسم قسم کے قیمتی چابک بھی لٹکے ہوتے ہیں۔ قیمتی کا مطلب یہ کہ جس کی سوٹی بھی مضبوط اور چابک بھی لچک والی اور جانور کے جسم پر لگنے والی ہوتی ہے۔اگر ان جانوروں کا کوئی پوچھنے والانہیں تو حشر کے دن تو پوچھ ہوگی کہ تم جانوروں پر ظلم کیوں کرتے تھے۔۔اکثر گدھا گاڑیاں چلانے والو ں کے پاس کولڈ ڈرنگ کی خالی بوتلیں ہوتی ہیں۔ جن میں وہ پتھر ڈال کر سڑک پرجاتے ہوئے گاڑی میں جوتے گئے گدھے کی کمر پر جھنجھناتے ہیں۔ جس سے خوفزدہ ہو کر جانور اور تیز بھاگتا ہے۔یہ تو قابلِ قبول ہے۔ مگریہ کیا نامرادی ہے کہ چابک سے گدھے گھوڑے کی کمر پر بازو کے زور سے مارا جائے۔ بلکہ پہلے تو چابک کی چھڑی جانور کی کمر پر مارتے ہیں۔ اگر اس سے گدھا زیادہ تیز نہ بھاگے تو پھرچمڑے کی پتلی اور کٹیلی چابک مارتے ہیں۔ اگر پھر بھی کام نہ چلے تو یہی چابک گدھے گھوڑے کی کمر پر بجانے کے بجائے اپنا چابک والا ہات نیچے کر کے جانور کے سینے پر مارتے ہیں۔کیونکہ وہا ں گدھے کی جلد نازک ہوتی ہے او روہاں مارو تو زیادہ لگتی ہے۔کیونکہ کمر کے بر عکس وہا ں بال بھی کم ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں تو کتوں کے محکمہ والے گھر گھر گھومتے ہیں اورکتو ں کو چیک کرتے ہیں۔اگر ان کی نگہداشت او رپرورش ٹھیک طریقے سے نہ ہو تو شہریوں سے یہ جانور چھین لیتے ہیں۔ وہ مالک روتا ہوا رہ جاتا ہے۔ مگر وہ کتوں کولے جاکر ان کو اچھی خوراک دے کر کہتے ہیں کہ ہم ان کو اچھا کتا بناکر دوسرے گھروں کو بھیج دیتے ہیں جہاں سے ان کی ڈیمانڈ آئی ہو۔یہ بہت عجیب باتیں ہیں۔وہ تو گدھوں گھوڑوں کے ساتھ اتنامحبت سے پیش آتے ہیں کہ ان
 جانوروں پر رشک آنے لگتا ہے کہ کاش ہمارے معاشرے میں کوئی اگر ہماری اتنی بھی پروا کرے تو ہم کیوں خراب ہوں۔انگریزوں نے اپنے گھوڑوں کو ہشکانے کے لئے اپنے ہاتھ میں دو فٹ کی دہری بیلٹ تھام رکھی ہوتی ہے جو گھوڑے کی کمر پر آہستگی سے مارے ہیں جب وہ تیز جانے میں سستی دکھلائے۔ وہاں کے تو گھوڑے بھی اپنے مالک کی طبیعت کو جانتے ہیں اور مالک گھوڑے کے ماں باپ کے اتے پتے سے بھی واقف ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔مگر یہ سب معاملات تعلیم کے ساتھ نتھی ہیں۔اگر تعلیم ہو مطلب ڈگریاں نہیں شعور ہو۔کیونکہ ڈگریاں شعور دلاتی ہیں۔ اگر ڈگریاں شعور نہ دے پائیں تو ڈگریاں حاصل کرنے کامقصد فوت ہو جاتا ہے۔تو سمجھو ڈگری لی نہ لی ایک برابر ہے۔پریم چند کا ایک افسانہ ہے۔ اس افسانے کا نام ہے روشنی۔ اس میں لکھا ہے کہ تعلیم فی نفسہ ڈگریوں کا نام نہیں۔یہ تو انسانیت حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جاتی ہیں۔ اگر ڈگری لی اور انسانیت نہ سیکھی تو سب بیکار چلا جاتا ہے۔