گوہر
خیبرپختونخواکے وزیراعلی کا یہ فیصلہ بڑا صائب ہے جس میں انہوں نے صحت کارڈ پر مفت علاج یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے اور اور محکمہ صحت کو نجی ہسپتالوں کی موثر مانیٹرنگ کرنے اور مفت علاج کی فراہمی پر عملدرآمد کے احکامات جا ری کر دئیے ہیں۔ ان کا یہ فرمان بھی بجا ہے کہ تحقیقات کے بعد شکایت ثابت ہونے پر متعلقہ ہسپتال کو صحت کارڈ پینل سے مستقل خارج کر دیا جائے گا۔ ایک عرصے سے اس قسم کی شکایت موصول ہو رہی تھیں کہ نجی سیکٹر میں بعض ہسپتالوں میں مریضوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے خرچے پر مختلف قسم کے ضروری بلڈ ٹیسٹ کروائیں جب ان سے سے مریض یہ اصرار کرتے کہ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے تو حکومت نے تمام علاج مفت کرنے کا وعدہ کیا ہے تو وہ ان کو جواب میں یہ کہتے کہ محکمہ صحت والے ان ٹیسٹوں کے بل پاس نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ مالی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کا مفت ٹیسٹ کر سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو مفت علاج کی اس سہولت سے لوگوں کو محروم کرنے اور حکومت کی اس پالیسی کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ایک دنیا جانتی ہے کہ مریض کا زیادہ خرچہ تو ان بلڈ ٹیسٹوں پر آٹھ جاتا ہے جو علاج شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر ان کو تجویز کرتے ہیں۔صحت انصاف کارڈ بلا شبہ ایک انقلابی پروگرام ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب اپنے مندرجہ بالا اقدام پر فالو اپ ایکشن لے کر ان ہسپتالوں کے خلاف ایکشن لیں گے کہ جو غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کر کے اس سکیم کو فیل کرنا چاہتے ہیں۔اب تذکرہ ہوجائے ذرا موسمیاتی تبدیلی کا جس کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جارہے ہیں اور جہاں پاکستان میں تاریخ کا طویل مون سون سیزن چل رہا ہے وہاں یورپ کو گزشتہ پانچ سو سال کی بد ترین خشک سالی کا سامنا ہے اور براعظم یورپ کا دو تہائی حصہ مسلسل شدید تر ہوتی جا رہی ایسی خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے‘ جس کی ایک بڑی مثال تقریبا ًخشک ہو چکے یورپی دریا بھی ہیں۔یورپی یونین
کی خشک سالی اور اس کے اثرات کے جائزے کیلئے قائم کردہ ایجنسی ای ڈی او کی تازہ ترین رپورٹ اس حوالے سے تہلکہ خیز ہے جس میں کہا ہے کہ اس براعظم میں موجودہ خشک سالی نے تو گزشتہ کئی صدیوں کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ ای ڈی او کے مطابق یورپ کے دو تہائی حصے کیلئے ایسی شدید خشک سالی کی تنبیہات جاری کی جا چکی ہیں‘ جس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں بہت سے دریاؤں میں پانی انتہائی کم ہو جانے کے باعث تجارتی جہاز رانی غیر معمولی حد تک کم کی جا چکی ہے‘ آبی بجلی گھروں کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں کمی آ چکی ہے اور متعدد فصلوں کی
پیداوار بہت کم رہ جانا تو پہلے ہی یقینی ہو گیا تھا۔ رواں ماہ کیلئے ای ڈی او نے اپنی جو رپورٹ جاری کی‘ اس میں بھی یورپی کمیشن کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ اس وقت یورپ کے مجموعی رقبے کے 47 فیصد حصے میں بارشیں نہ ہونے اور مسلسل شدید گرمی کے نتیجے میں حالت یہ ہے کہ مٹی میں نمی کا واضح فقدان ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس خشک سالی کے نتیجے میں اس براعظم کے 17 فیصد رقبے پر اگا سبزہ‘ پودے‘ درخت اور جنگلات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس ماہانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے‘ رواں برس کے آغاز سے ہی جس شدید خشک سالی نے یورپ کے بہت سے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ اس میں اگست کے مہینے کے اوائل سے مزید شدت آ چکی ہے۔ خاص طور پر یورپ کے بحیرہ روم کے ساحلوں کے قریبی علاقوں میں‘ جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہاں غیر معمولی حد تک گرم خشک
موسم تو اس سال نومبر تک جاری رہ سکتا ہے۔ یورپ کے زیادہ تر حصوں کو اس سال اب تک موسم گرما کے دوران جھلسا دینے والی حدت کا سامنا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے متعدد ممالک میں بے شمار مقامات پر جنگلات میں آگ لگ گئی‘ حکومتوں کو عام شہریوں کیلئے ان کی صحت اور سلامتی کے حوالے سے خصوصی تنبیہات جاری کرنا پڑ گئیں اور عوامی سطح پر یہ ادراک بھی بہت واضح ہو گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا شدہ ایسے شدید موسمیاتی حالات کے تدارک کیلئے فوری اقدامات کیے جانا چاہئیں۔ ای ڈی او کے رپورٹ ہی کے تناظر میں یورپی کمیشن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپ میں موجودہ خشک سالی گزشتہ پانچ سو سالہ عرصے میں ریکارڈ کردہ بد ترین خشک سالی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ رواں برس یورپ میں زرعی اجناس کی پیداوار گزشتہ پانچ برسوں کی اوسط سالانہ پیداوار سے 16 فیصد کم رہے گی۔ یہی نہیں بلکہ یورپ میں خاص کر انہی حالات کے باعث سویابین کی پیداوار بھی اس سال کے آخر تک 15 فیصد اور سورج مکھی کی پیداوار 12 فیصد کم رہے گی۔اسی غیر معمولی خشک سالی نے یورپ میں جن دیگر اقتصادی اور کاروباری شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے‘ ان میں اندرون ملک جہاز رانی بھی شامل ہے اور آبی ذرائع سے بجلی کی پیداوار بھی۔ مثال کے طور پر یورپ کے بڑے دریاؤں میں شمار ہونے والے جرمنی کے بہت طویل دریائے رائن میں پانی کی سطح اتنی کم ہے کہ مال برداری کرنیوالے بحری جہازوں کی آمدورفت بہت کم کرنا پڑ گئی۔ اس وجہ سے کوئلے اور تیل کی مال برداری کا شعبہ بھی متاثر ہوا اور کمرشل شپنگ پر اٹھنے والی لاگت بھی بہت بڑھ گئی۔یہی نہیں کئی یورپی ممالک میں دریاؤں میں پانی کی کمی اتنی شدید ہے کہ اس سے ہائیڈرو پاور جنریشن کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔ جنوبی یورپ کی کئی ریاستوں میں تو پانی سے بجلی کی پیداوار بہت کم ہو گئی ہے جبکہ کئی ممالک میں شہروں اور قصبوں میں گھریلو استعمال کیلئے پانی کی ترسیل بھی متاثر ہوئی ہے۔