پنجاب پولیس نے جرائم کی گتھیاں سلجھانے کے لئے خواتین اہلکاروں کی خدمات سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں ”لاہور پولیس“ نے اپنے چھ ڈویژنوں میں سے ہر ایک میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بطور تفتیشی افسر تعینات کر دیا ہے۔ ہر ڈویژن میں یہ چھ پولیس تفتیشی آفیسرز‘ اُن تفتیشی ٹیموں کا حصہ بنا دی گئی ہیں جو قبل ازیں تعینات ہیں۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ خواتین کی کارکردگی بطور پولیس تفتیشی اہلکار زیادہ بہتر (نمایاں) رہی ہے۔ اُمید تھی کہ حال ہی میں لاہور پولیس میں ہوئیں 84 نئی پوسٹنگز میں سے ایک فیصد نہیں بلکہ زیادہ تعداد میں خواتین کو ’مؤثر پولیسنگ‘ کے لئے تعینات کیا جائے گا۔ پنجاب پولیس کے تفتیشی عملے میں خواتین اہلکاروں کی تعیناتی کاتجرباتی فیصلہ کامیاب رہا۔ روایتی سوچ یہ تھی کہ خواتین پولیس اہلکاروں کو جرائم تفتیشی ٹیموں کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ ذمہ داری اِن کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے لیکن پولیس کے فیصلہ سازوں نے اِس روایتی سوچ سے اتفاق نہیں کیا اور ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا جو صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں کی پولیس کے لئے بھی اہم و مثالی اقدام ہے۔ دنیا بھر میں‘ خواتین پولیس کے ہر شعبے میں خدمات سرانجام دیتی ہیں اور خواتین پولیس اہلکاروں کے کارناموں سے تاریخ بھری ہوئی ہے جو آن ڈیوٹی اور تفتیشی عمل میں معاونت کرتی ہیں۔ لاہور پولیس نے جرائم کی بلند شرح اور کمزور تفتیشی عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جرائم کی تفتیش میں
ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدل دیا جائے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ خواتین پولیس آفیسرز جنہیں ایک نیا اور چیلنجنگ کردار سونپا گیا ہے وہ خود کو ثابت کرنے کے لئے انتہائی جانفشانی اور فرض شناسی سے کام کریں گی۔ خواتین کی پولیس فورس سمیت جس کسی شعبے میں بھی شمولیت کا تجربہ کیا گیا وہ اب تک کامیاب ثابت ہوا ہے اُور امید کی جا سکتی ہے کہ اِسے صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر علاقوں اور ملک کے باقی ماندہ حصوں تک بھی پھیلایا جائے گا۔ پولیسنگ کے معاملے میں خواتین کی صلاحیتوں سے استفادہ اور مرد و خواتین پولیس اہلکاروں میں عدم مساوات کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ پاکستان میں بالعموم پولیس فورس میں صنفی حساسیت کو تربیت کا جز بنایا جائے گا اور خواتین کی افرادی قوت میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔ آج کے عمومی و خصوصی جرائم سے خواتین نسبتاً زیادہ متاثر ہو رہی ہیں اور ایسی صورت میں اگر خواتین پولیس کی افرادی قوت کا حصہ ہوں گی تو خواتین کے خلاف جرائم کے حل اور جرائم کی رپورٹنگ کے عمل میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں خاص طور پر اہم ہے کہ جہاں خواتین آبادی کے نصف سے تو زیادہ ہیں لیکن انہیں کسی بھی شعبے میں مردوں کے مقابلے کم افرادی قوت میں شامل کیا جاتا ہے اور ملازمت ہو یا گھر خواتین کو اب بھی حیران کن طور پر روایتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ اقدامات کی اہمیت مسلمہ ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس سلسلے کو ایک صوبے یا ایک شہر تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ پورے ملک میں خواتین کو پولیسنگ کے شعبے میں مؤثر کردار دیا جائے گا تاکہ خواتین کے خلاف معاشرتی جرائم میں کمی ہو اور اس حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔