ہمارے پشاور میں وہ سیلابی صورتِ حال تونہیں۔ مگر ہمارے شہر کے گرد و نواح میں جو دریا بہتے ہیں وہ پانیوں لبا لب بھرے ہیں۔بلکہ کہیں تو ندی نالے اور نہریں وغیرہ اپنے کناروں سے باہر اُبل رہے ہیں۔ جیسے پشاور میں چند برسوں پہلے جو شدید قسم کی بارش ہوئی تھی تو محلہ جنگی قصہ خوانی میں آر پار جانے کو کشتیاں چلنے لگی تھیں۔پشاور میں تو اگست کے گرم ترین مہینے میں ہر روز شام کے بعد اور ایک دن چھوڑ کے دن کے وقت او رکچھ دنوں سے روزانہ ہلکی ہلکی بارش کا سماں ہے۔وہ موسم ہے کہ دل کو بھی تر کردیتا ہے۔مگر ملک کے باقی علاقوں کی طرف دھیان جائے تو دل کے ساتھ آنکھیں بھی تر ہو جاتی ہیں۔میر تقی میر نے کہا تھا ”کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا“۔ایک شہر تو نہیں کئی شہر پانی میں ڈوب گئے۔ سو ان دنوں تو بارش بھی پریشان کرنے لگتی ہے۔چارسدہ اوراطراف میں سیلاب آیا تھا تو زمین جائیدا ووالے پشاور میں لگے ہوئے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں سمٹ آئے تھے۔کسی کو کیا پتا کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔آنے والے کل تو کیا آنے والے اگلے پل کے بارے میں بھی کسی کے پاس ٰکوئی ضمانت نہیں کہ کچھ تباہی ہو نہ پائے۔پشاور
ہو یا ملک کا کوئی بھی شہر ہو سب اپنے ہیں اور اس میں رہائش پذیر بھی سب اپنے ہی ہیں۔سو اس ملک کو اس شہرِ پشاور کو ”خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے“۔ ہمارے شہر کو تو موسم کی ہریالی اور دل کشی مفت میں دل خوش کرنے کو مل رہی ہے۔ اب جو تباہ حال ہیں جن کے گھر بار لٹ گئے ان کی آباد کاری کا سلسلہ دراز کرنا ہے۔کیونکہ چاروں طرف سے پانی کی شرار کی آوازیں آ رہی ہیں۔ رات کو سوئے مگر صبح جب آنکھ کھلی تو اپنی ہی چارپائی کے نیچے پانی تیر رہا تھا۔ گھر سے باہر نکل کر دیکھا تو دور دور تک جہاں نگاہ گئی پانی ہی پانی بچے ڈوب گئے اور مال مویشی مر گئے۔ بچیوں کے جہیز کا سامان جو رکھا تھا وہ پانی کا ریلا لے گیا۔کچھ آبادیاں تو بارش رکنے پر اُبھر آتی ہیں مگر جو کچے مکانات تھے سب زمین بوس ہو گئے کہیں کسی ایک گھر کا سراغ نہیں مل رہا۔اندر رہنے والے باہر کہیں ہجرت کر کے سب سازو سامان پیچھے چھوڑ کر پناہ گزین ہو گئے۔مگر یوں کہ روٹی پانی کو محتاج ہوگئے۔ کھلی فضا میں پناہ لینے والوں کیلئے بچوں کے سروں پر خیموں کی چھت بھی نہیں‘ ایک طرح کی نہ توکہنے اور نہ ہی سننے اور نہ سنا پانے والی صورتِ حال ہے۔پھر مہینوں سے جاری اس بارش میں وقفہ کی بھی تو کوئی خبر نہیں۔ پھر اگر موسمیاتی اداروں والی خبریں آتی ہیں تو ان میں بارشیں لپٹی ہوتی ہیں۔بارش کی خواہش کرنے والے اور اس رومانوی فضا کو پسند کرنے والے بھی فکر کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں۔مگر کہتے ہیں کہ یہ سب خود اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیا ں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ کیونکہ ہم نے خود دھول مٹی دھواں گرد وغبار ماحول کی آلودگی کو پرورش کر کے پروان چڑھایا تھا اب اس کی بھگتان بھی تو ہم نے کرنا ہے۔جو بوئے گا وہی کاٹے گا اور جو کاشت کرے گا اسی فصل کی کٹائی کریگا۔ کانٹے اگا کر پھول حاصل کرنے کی تمنا تو بیکار ہوئی۔ موسمیاتی تبدیلیاں تو پوری دنیا میں برے طریقے سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔مگر باہر ملکوں میں تو اس آفت سے دو دو ہاتھ کرنے کو خود وہاں کے شہریوں کے اپنے کئے ہوئے انتظامات موجود ہیں مگر ہمارے ہاں
حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے پاس اس موجودہ سیلابی کیفیت سے نپٹنے کو وسائل نہیں۔ باہر ملکوں کی امداد بھی آنے لگی ہے مگر کہتے ہیں کہ وہ جو 2005ء میں زلزلہ آیا اس میں جو تباہی ہوئی وہ کم ہے۔پھر جو اب اس سیلابوں سے تباہ کاریاں ہوئی ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ گاؤں جو آباد تھے وہ تو پانی کے نیچے غائب ہو گئے ہیں۔ جن صحراؤں میں صحرا نشین بوند بوند پانی کو ترستے تھے اب کے اس سیلابی ریلوں کے دوران میں وہاں کشتیاں چلائی جا رہی ہیں۔ شہرِ کراچی کے گلی کوچوں میں بھی کشتیوں پر لوگ آ جارہے ہیں۔ اب موقع ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کوسرگرم کریں ہمیں سیلاب کی اس تباہ حالی کو سامنے رکھ کر جہاں بلدیاتی انتخابات منسوخ کرنا پڑے ہیں وہاں اپنے سیاسی کارکنوں کو لے کر ان آفت زدہ علاقوں میں امداد دینے کی غرض سے جانا چاہئے۔ جہاں روزمرہ کی اشیاء کی ضرورت ہے اور جہاں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔”ان کاجو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں۔میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“۔سو ہمیں اس وقت سیاسی اختلافات سے دور رہ کر دوردراز کے علاقوں تک خود بہ اپنے جسم جانا چاہئے تاکہ دل زدگان اور سیلاب زدگان کی امداد کا سامان ہو سکے اور ان کی دل جوئی ہو۔