انسانی المیہ

مون سون میں سیلاب اور غیر معمولی بارشیں پاکستان کے لئے نئی بات نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کا اِس قدر شدید اثر یقینا غیرمعمولی ہے جس کا مجموعہ نتیجہ ناقابل تلافی انسانی جانوں‘ مال مویشی‘ فصلات‘ باغات اور زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے علاقوں کو پہنچا ہے‘ جو شہروں کی تعمیروترقی جیسے سراب اور مصنوعی پن سے دور ایک الگ اور حقیقی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اب خیبرپختونخوا کے چار اضلاع (اپر و لوئر چترال‘ کوہستان اور ڈیرہ اسماعیل خان) سمیت جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں جل تھل ایک ہو چکا ہے۔ سال 2010ء میں بھی سیلاب کے ساتھ اِسی قسم کی تباہی آئی تھی تاہم اِس مرتبہ سیلاب کئی گنا زیادہ بڑے پیمانے اور وسیع رقبے میں رہنے والوں کو متاثر کئے ہوئے ہے اور اِسے رواں صدی کا بدترین سیلاب قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مشکل کی گھڑی میں دیگر حکومتی اداروں کے شانہ بشانہ پاک فوج منظم امدادی کاروائیوں میں حصہ لے رہی ہے اور اُمید ہے کہ جلد ہی اس بحران پر بھی قابو پالیا جائے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بارشوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا اور محکمہئ موسمیات نے رواں ہفتے مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔ بنیادی بات سیلاب سے متاثرین کے بارے میں اعدادوشمار کی ہے جو اندازوں پر مبنی ہیں اور بیشتر علاقوں میں ہوائی جائزے کی بنیاد پر متاثرین کی خانہ شماری کی گئی ہے۔ قومی و صوبائی فیصلہ سازوں اور ذرائع ابلاغ نے دوست ممالک اور امدادی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے بھی اپیلیں کی ہیں اور عطیات اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم آفس نے ”ریلیف فنڈ“ کی مد میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد روپے اکٹھے کئے ہیں۔ فلاحی تنظیموں کے ساتھ تاجر برادری اور ملک کے مخیر حضرات نے متاثرین کے لئے کھانے‘ کپڑوں اور پناہ کا انتظام کیا ہے۔ اس نقصان پر قابو پانے کے لئے اقوامِ متحدہ نے دنیا سے 2ارب ڈالر کی اپیل کی تھی اور تو اورگلوکاروں اور کھلاڑیوں نے بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جذبے سے گرانقدر کام کیا ہے۔ ماضی میں اِس طرح کے حالات اور ضرورت کے وقت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نجی ٹیلی ویژن پر مسلسل پانچ گھنٹے ’طویل نشریات (ٹرانسمیشن) کی تھی اور چھ کروڑ سے زائد روپے اکٹھے کئے تھے۔ ذرائع ابلاغ نے سیلاب پر طویل نشریات کے ذریعے اندرون و بیرون ممالک مخیر حضرات کو متوجہ کیا اور یہی وجہ تھی کہ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے بھی پاکستان کی سیلابی صورتحال سے متعلق ’کوریج‘ کا اہتمام کیا تھا۔سیلابی علاقوں میں حالات تیزی کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں تاحال امدادی کام شروع نہیں ہوپائے اور بارشیں بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی ہے اگر ایسا ہوتا ہے کہ امدادی کاموں میں یقینا خلل پڑے گا اور امدادی کاروائیاں زیادہ بڑی پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ وقت ہے کہ ’بین الاقوامی برادری‘ سے رابطہ کیا جائے اور تباہی کے واضح بڑھتے ہوئے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’بڑے پیمانے پر‘ امدادی سرگرمیاں جلد از جلد شروع کی جائیں۔وقاقی اورصوبائی حکومتوں کو روایتی اعلانات و اقدامات سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اُسی پیمانے پر لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا جس قدر بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے کیوں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں غیرمعمولی طور پر بڑا ’انسانی المیہ‘ ہے۔