برفانی ہوائیں 


 


یہ برفیلی ہوائیں تو آگ لگانے کو اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔بے آسرا لوگوں کے خیمے تیز ہواؤں جھکڑ پیہم بارشوں سے اُڑ جائیں یا ان کو یہی ٹھنڈی ہوائیں آگ لگائیں ان دنوں تو یہ ایک ہی بات ہے۔بھیگا بھیگا سا دسمبر تو سنا تھا مگر اب تو موسم کے ساتھ کچھ روایات کی تبدیلی کرنا ہوگی یعنی بھیگا بھیکا سا اگست کہنا پڑے گاکبھی تو نہ دیکھا نہ سنا‘مگر دو ایک روز پہلے کی ٹھنڈی ٹھار رُت میں ننھی منی اور تسلسل کی برسنے والی برکھا نے تو رات کو پنکھے تلے چادریں لے کر سونے پر مجبور کر دیا ہے‘صبح اٹھو تو سر میں درد ابل رہا ہوتا ہے کیونکہ رات گئے اور تان کر سوئے لمبی چادر جسم سے دور گری ہوتی ہے ایسی ٹھنڈک میں بدن اکڑ جاتا ہے یوں کہ گٹے گوڈوں میں دردوں کی بوچھاڑ شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ان دنوں اگست کے ایام ہیں اور عجیب روز و شب ہیں۔چھت پر رکھی ٹینکی کا پانی جو ہفتہ دس دن قبل اتنا گرم تھا کہ جیسے قہوہ کے لئے کسی نے کیتلی چولھے پر دھری ہو مگر اب تو یوں لگے جیسے کسی نے ٹینکی میں برف کے سانچے اوندھے منہ گرا دیئے ہیں۔اگست گیا نہیں اور ستمبر آیا نہیں مگر گرم مزاجوں کے دروازوں پر ٹھنڈک نے ابھی سے دستک دینا شروع کر دی ہے۔لگتا ہے کہ موسمِ سرما کا آغاز اب کے تو یکم ستمبرہی سے شروع ہو جائے گا۔ جب انگریز یہاں تھے تو انہوں نے بیسیوں سالوں کے مسلسل غور و فکر کے بعد سکولوں کی چھٹیوں کا دورانیہ معین کیا تھا۔پھر ہم نے بھی نصف صدی پیشتر جو پشاور میں آنکھ کھولی تو یکم ستمر ہی سے سردی کو شروع ہوتے دیکھا۔ مگر پھر بعد میں اب سے بیس سال پہلے گرمی طویل ہوگئی۔ پھر چھٹیوں کے بعد یکم ستمبر کو سکول کالج توکھل جاتے مگر سردی کہیں جا کر ڈیڑھ مہینے کے بعد پندرہ اکتوبر سے شروع ہوتی ہے لیکن اب معلوم ہورہا ہے کہ چالیں الٹی پڑ رہی ہیں اور پانسہ پلٹ گیا ہے۔موسم کی ترتیب بدل دی گئی ہے۔بلکہ الٹ پلٹ کر دی گئی ہے۔موسم تو اچھا او رخوشگوار ہو چکا ہے مگر مزا تو جب ہے کہ اندر کا موسم بھی تو خوشگوار ہو۔کیونکہ موسم کے بدلنے سے وہ گانا لبوں پہ جھولنے لگا ہے ”یار بدل نہ جانا موسم کی طرح“ موسم کا کیا ہے اچانک تبدیل ہو جاتاہے۔خدا خیر کرے موسمیاتی تبدیلیاں تو یوں سر پر آن رہی ہیں کہ ہر سو پانی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اب تو اگست میں جیسے دسمبر کی سردی کا لطف اٹھانا ہے۔لہلہاتے درختوں کے پتے ہیں اور جھولتی شاخیں ہیں۔کھیتوں کے رنگ نکھر کرمزید واضح ہو چکے ہیں۔چھوٹی ندیاں پانی میں خودکفیل ہو چکی ہیں۔جہاں بارشوں کی یلغار نہیں وہاں تو فصلوں کی اٹھان خوب ہے۔مگر مجموعی رنگ میں بھنگ پڑ چکا ہے۔لگتا ہے کہ پورے ملک کو چلانے کے لئے اب اناج اور غلہ باہر کے ملکوں سے منگوانا پڑے گاکیونکہ ہمارے ہاں دوسرے شہروں میں تو فصلوں کو جیسے اکٹھا کر کے تلف کر دیا گیا ہے‘کہیں موسم کے مزے ہیں او رکہیں موسم کے کوڑے یوں پڑ رہے ہیں جیسے آسمان پر بجلی کڑکے گرجے اور چھم چھما چھم پھر سے بارش کی بہار جھلکنے لگے مگر کہیں تو اس ابرِ باراں میں وقفہ بھی نہیں آ رہا۔چھوٹی چھوٹی مگر مسلسل بارش نے اس آوارہ مصرع کو سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔کرک سے اور بلوچستان او ر پنجاب سے شہری اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے دوسرے شہروں کو ہجرت کر گئے ہیں‘ساون تو گیا رخصت ہوااور اس کی پون ابھی تک چل رہی ہے‘ناصر کاظمی کی خوبصورت غزل نیرہ نور نے جو کچھ دنوں پہلے انتقال کرگ ئی ہیں بہت بھلے سخن سے گایا تھا۔”پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے“پون تو اب آندھی بن گئی ہے اور جھکڑ بن کر جُھل رہی ہے۔دیکھیں اگلے موسموں میں کوئی خیر کی خبر ہو اور شہر میں بسنے والوں کے لئے شہر کے بسنے کا مہورت ہو کوئی خوشحالی کی صورت ہو۔بعض گھروں میں کچھ تو بجلی کے بلوں کے ڈر کے مارے اور پھر اس سردی کی کیفیت کی وجہ سے فریج بند کر دیئے گئے ہیں۔دن کو بند نہ ہو تورات کے دورانیہ کے لئے فریج بند کر کے سو جاتے ہیں۔ پھر بجلی کے بلوں کے ستائے ہوئے اکثر شہریوں نے تو موجودہ یخ بستہ راتوں میں اے سی بھی بند کر دیئے ہیں۔