موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کا ایک طریقہ تو یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں وسیع پیمانے پر شجرکاری کی جائے۔ اس لیے ارباب اقتدار اس ضمن میں جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہونی چاہئے۔ چین نے اس شجر کاری کے ذریعے کافی حد تک اس مسئلے کو حل کیا ہے وہاں جو شخص بھی ا گر ایک درخت کو کسی وجہ سے کاٹتا ہے تو قانونی طور پر اس پر یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ اس کے بدلے دو پودے لگائے گا بلکہ صرف پودے لگائے گاہی نہیں بلکہ جب تک وہ تناور درخت نہیں بن جاتے ان کی باقاعدہ آبیاری بھی کرتا رہے گا اور اس کام میں سستی برتنے پر اسے سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔
وطن عزیز میں تو اس قسم کا سخت قانون نافذ کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ اب قومی مفاد کی خاطر ہمیں بعض قوانین کے اطلاق میں سختی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ ہر شعبے میں ان ممالک کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ وہاں قانون توڑنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ اب بھی اس ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سبزہ زاروں کا تیزی سے صفایا کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ پلازوں کی شکل میں کنکریٹ کے جنگل بنائے جا رہے ہیں اگرہم قدرت کے ساتھ اس قسم کا کھلواڑ کریں گے پھرہم کو اس قسم کی موسمیاتی تبدیلی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کہ جو ہم کررہے ہیں۔
اب ایک اور اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ہمارے کئی مکانات اور عمارات بارش کے سیلابی ریلوں سے زمین بوس اس لئے بھی ہو جاتی ہیں کہ لوگ قدرتی نالوں کے پانیوں کے بہا ؤکے رستے میں عمارتیں بنا لیتے ہیں اور متعلقہ ادارے اس پر چپ سادھ لیتے ہیں۔اس حوالے سے اب باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر سیلابوں کاخطرہ بڑھ گیا ہے۔ دریاؤں کے قدرتی اور فطری راستوں میں رکاوٹ ڈال کر ہم اپنا نقصان کرتے ہیں۔ پانی نے تو اپنا راستہ بنانا ہے اور جو بھی رکاوٹ اس میں ہوگی اسے بہا کر لے جائیگا۔
ہمارے سیاحتی مقامات پر دریاؤں کے آس پاس جس طرح عمارتیں بنی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں مالی اور جانی نقصان کا خطرہ تو بہر حال رہے گا۔اس وقت ملک میں مون سون کا موسم ماضی کے مقابلے میں طویل واقعہ ہوا ہے اور معمول سے کئی گنا زیادہ بارشوں سے ملک کے زیادہ ترحصوں میں سیلاب کی کیفیت ہے جس نے 2010کے سیلابوں سے زیادہ نقصان کیا ہے اور ایک طرح سے ملک بھر میں ہنگامی صورتحال ہے۔ ان حالات میں اب یہ لازم ہے کہ اس حوالے سے منصوبہ بندی ہو کیونکہ ہر سال ان مہینوں میں سیلابوں کا خطرہ اب رہے گا۔دریاؤں کے کنارے آبادیوں کے سلسلے کو اب روکنا ہوگا کہ اس سے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے اور مالی و جانی نقصان کا خدشہ بھی رہتا ہے۔