خالی پلاٹ 

گلی محلوں کے خالی پلاٹ ہیں۔ان کے مالکان کے نام تو معلوم ہیں۔مگر اہلِ محلہ کو ان کی رہائش کے بارے میں واقفیت نہیں ہے۔فون نمبر بھی اہلِ محلہ کے پاس ہیں۔ مگر مالکان کو فون کرو تو وہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ پشاور سے باہر دو سومیل دور کہیں اوپری علاقوں کے مکین ہیں۔ ان کو چاہئے کہ کم از کم اپنے پلاٹ کے گرد چاردیواری تعمیر کر دیں۔معاملہ یہ ہے کہ ان خالی پلاٹوں کو عوام نے کوڑے کا ڈھیر بنا رکھا ہے۔پھر آج سے نہیں عرصہ ئ دراز سے ان گند پھینکنے والوں کی مشق جاری ہے۔کیونکہ یہ خالی پلاٹ رہائشی کالونیوں کے عین بیچوں بیچ واقع ہیں۔جہاں ارد گرد گھنی آبادی ہے اور شہریو ں کا آنا جانا سارا دن لگا رہتا ہے۔ان مکینوں سے یہ نہیں ہوتا کہ تھوڑا واک کے بہانے سہی پرے جا کر اپنے گھر کا گند کا تھیلا پھینک کر آ جائیں۔ پھر خود نہ جائیں کسی بچے کو بھجوا دیں۔ کیونکہ یہ ایک روز کی یا ہفتہ میں ایک دن کی بات تو نہیں ہے۔یہ تو روز کی کشمکش ہے۔ڈھیر اُبل رہا ہوتا ہے۔ صفائی کے عملے کو بار بار کہنا پڑتا ہے  یوں یہ گند روز بروز زیادہ ہوتا جاتا ہے۔کچھ تو اس گند کو چیل کوے نوچ کر کھا جاتے ہیں او رکچھ کباڑ بیچنے والے اس کو ٹٹول کر اس میں سے اپنے کام کی چیزیں نکال کر لے جاتے ہیں۔ یوں یہ کوڑا تھوڑا کم ہوجاتا ہے۔ مگرضرورت ہے کہ گند گریل کو مکمل صاف کر دیا جائے۔

ہم شہریوں میں اتنی سمجھ ہوتی تو پورے پشاور میں علاقہ وار جو خالی پلاٹ کوڑے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں کبھی ایسا نہ ہوتا۔کیونکہ اس سے رہائشی فضا او رآب ہوا بدبو دار ہو جاتی ہے۔مگر چونکہ ان شہریوں اور ایک دوجے کے ہمسایوں کو یہ سب کچھ گوارا ہے سو ان کی طبیعتوں پر یہ گراں نہیں گذرتا۔وہ اپنا مزے سے زندگی کی گذران کر تے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ہمیں تو ایک سہولت حاصل ہے کہ ہم اپنے گھرکا گند اپنے گھر کے دوچار قدم وہاں پھینک سکتے ہیں۔ مگر اس گند کو اٹھایا بھی توجائے۔ جہاں کے گلیوں کے رہائشی سمجھدا رہیں وہ تو عملہ صفائی کو فون کر کے بلوالیتے ہیں۔پھر بعض جگہ تو یہ صفائی کے کارکن روز گاڑی لا کر یہاں سے گند اٹھاتے ہیں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گند یہاں پھینکا ہی کیوں جاتا ہے۔مالک کو فون کرو کہ آپ کے اس خالی پلاٹ کے ساتھ میرے گھر کی دیوار ہے۔جس کی سوراخوں میں سے بدبو اندر کمروں میں آکر پھیل جاتی ہے۔ آکر کم از کم اگر اس کو تعمیر نہیں کرتے اور اس کو برائے فروخت رکھا ہے تو اس کے گیر چاپیر چاردیواری تو اٹھا دو تاکہ اہل محلہ گھرو ں کا گند دور لے کرجانے کے بجائے اس پلاٹ میں نہ پھینکیں۔

دراصل گندگی کے ڈالنے اور اس کو صاف نہ کرنے میں اگر ہماری کوئی مثال ہے تو وہ ہم خود ہیں۔مگر اب ہمیں درکار ہے کہ ہم بری مثال بننے کے بجائے ایک اچھی مثال بننے کی طرف آئیں۔ سب کچھ حکومت پر چھوڑ کر گھر آجائیں تو بھی درست نہیں۔حکومت کا اب اتنا بھی صفائی کا نیٹ ورک عمدہ نہیں کہ وہ ہر گلی محلے میں صفائی کرتے پھریں۔ کچھ تو ہمیں بھی کرنا چاہئے پاپڑ کھا کر ہمارے بچے خود اس کے رنگین کاغذ زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ان کو ہم لوگ نہیں کہتے کہ بیٹا یہ اچھی بات نہیں ہے۔یہ کوڑے کی باسکٹ میں پھینک دینا چاہئے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ بچہ سوال کر بیٹھے کہ پاپا کوڑے کی باسکٹ کہاں ہے۔

اس سوال کے جواب میں ہمارے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ کیونکہ کوڑے کی باسکٹ تو باہر ملکوں کی طرح ہمارے ہاں جگہ جگہ نہیں پڑی ہوتی کہ ہم گند کا تھیلا لیں اور اس میں پھینک دیں۔بلکہ زمین پر جگہ جگہ آپ کو کیلے کے چھلکے اور فروٹ کی گھٹلیاں اور دیگر گند پڑا ملے گا۔پھر چھوٹے چھوٹے شاپروں میں ڈالا ہوا گند گھروں کے باہر ایک طرف کر کے رکھا ہوگا۔کوڑے کے ڈمپر تو وہ کہیں دور پڑے ہوں گے۔خوددکاندار اپنی دکان کا گند اٹھا کر سڑک کے عین بیچ میں لڑھکا دیں گے۔ہاتھ کو زیادہ لمبا نہیں کریں گے۔کیونکہ دوسرا دکاندار کہے گا تم نے میری دکان کے باہر گند گرا دیا ہے۔ اس لئے چونکہ سڑک کسی کی جاگیر نہیں لاوارث شئے ہے سو اس پر گند گرانے میں کیا حرج  ہے۔