سیلابوں نے ملک کے طول و عرض میں جو تباہی مچائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ بحالی ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے اور اس میں کثیر سرمائے کی بھی ضرورت پڑے گی۔اس مشکل کی گھڑی میں اگر او آئی سی کے ممالک دل کھول کر ہماری مالی امداد کو نہیں آ ئیں گے تو پھر کب آئیں گے تا دم تحریر ان سے تو اوورسیز پاکستانی لاکھ درجے بہتر نکلے جو سیلاب زدگان کیلئے مالی امداد جمع کر رہے ہیں۔ یہ گھڑی ہمارے تمام سیاست دانوں کیلئے بھی امتحان کی گھڑی ہے۔ سیاست انتظار کر سکتی ہے پر سیلاب زدگان پاکستانیوں کی امداد کا کام کسی انتظارکا متحمل نہیں ہو سکتا۔ برطانیہ نے 40 کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں۔ وزیر اعظم کی اگلے روز سفراء سے اس ضمن میں جو بات چیت ہوئی ہے اس کے نتائج بھی امید ہے اچھے نکلیں گے اور عمران خان کی ٹیلی تھون بھی رنگ لائے گی۔صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ روز ہزار سے زائد ہو گئی اوراین ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید 119 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشیں ابھی تک جاری ہیں۔
یہ بد قسمتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کبھی تو خشک سالی کا سامنا ہوتا ہے اور سالانہ مون سون جو فصلوں کو سیراب کرنے اورجھیلوں اور ڈیموں کو بھرنے کا ایک موقع ہوتا ہے اب جانی اور مالی نقصان کا باعث بنا۔ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بڑے پیمانے پر نقصانات سے دوچار ہوا ہے۔ صوبے کے تمام 34 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں، سڑکوں کے نیٹ ورک تباہ اور پل بہہ چکے ہیں۔بلوچستان جہاں سی پیک کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں ان سیلابوں کے نتیجے میں ایک بار پھر پسماندگی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں پر انفراسٹرکچر کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی بحالی میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔ ریلوے کے پل، سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر کا ڈھانچہ کثیر سرمائے سے ہی دوبارہ بحال ہو سکتا ہے اور اس وقت ملک کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس میں اتنے فنڈز مختص کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
جہاں تک سیلابوں سے تباہی کا تعلق ہے تو حکومت کو مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا کیونکہ بارشوں نے تو ہر سال آ نا ہے ہم نے اس معاملے میں کافی ٹھوکریں کھائی ہیں اب تو ہماری آ نکھیں کھل جانی چاہئیں۔ ان غم کی خبروں میں ایک خوشی کی خبر یہ ہے کہ عالمی کرکٹ میں انجام کار افغانستان نے اپنا مقام بنا لیا ہے۔ اگلے روز اس نے سری لنکا کی ٹیم کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ دنیا کی چند مضبوط ٹیموں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہے۔جس کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی ٹیمو ں کو بھی اب محتاط رہنا پڑیگا کیونکہ افغانستان کی ٹیم میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو کسی بھی وقت کھیل کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کی ٹیم نے وقت گزرنے کے ساتھ کافی ترقی کی ہے اور کھیل کے تمام شعبوں میں اس نے اپنی مہارت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں کرکٹ کے فروغ میں پاکستان نے اہم کردارادا کیا ہے۔