جو میں کہتا ہوں وہ نہیں لکھتا اور جو نہیں کہتا وہ لکھتا ہوں‘کیونکہ میں دیکھتا ہوں‘جو مشاہدے میں آتا ہے اور جو سماعت کے پردوں پر دستک دیتا ہو اس پر توجہ دیتا ہوں۔جو کہنی ہوتی ہے وہ تو نہیں لکھی جاسکتی مگرجو ان کہی ہے اس کے بارے میں ڈر ہے کہ ان کہی نہ رہ جائے۔اس لئے سنی سنائی نہیں بلکہ دیکھی بھالی جو ہو وہ تحریر میں لے آتا ہوں کیونکہ لکھنے کیلئے مواد یہیں اپنے ارد گرد اور آس پاس سے آتا ہے۔پیارے پوچھتے ہیں کہ تم مواد کہاں سے لاتے ہوں‘ارے کہا ں سے لانا ہے‘میں الہ دین کے چراغ والا جن تو نہیں یا چراغ کو رگڑنے سے جن کو خود حاضر کر سکتا ہوں۔ پھر اس سے کہوں یا خود جا کرمریخ سے مواد لے کر آؤں‘ جو لکھا ہے تپاکِ جاں سے لکھا ہے اور جو دیکھا وہی سپردِ قلم کیا ہے۔مگر سنا سنایا نہیں رٹا رٹایا نہیں گھسا پٹا نہیں۔تازہ اور فریش مواد جس کے پیچھے نہیں جاناپڑتا کہ اس کو تلاش کر کے قلم کی کمان میں جڑ کر تیر کھینچا او رگولی کی سی تیزی سے ہوامیں چھوڑ دیا۔ مشاہدہ اور آنکھوں دیکھا بھی اس طرح کہ پہلے سینے کی ڈھال پر تیر کھائے۔پھر آنکھوں میں ریزہ ریزہ شیشے کی کرچیاں نگاہوں کو خون آلود کر گئیں جو دیکھا تو رہا نہ گیا کہ آنکھوں میں دکھن تھی وہی ضبطِ تحریر میں لاتا ہوں۔او رکہاں سے آتا ہے یہیں میرے لوکیل میں جو ہو وہی کیلوں کی طرح میرے دماغ کے مقناطیس سے چمٹ جاتا ہے۔
کلبلاتا ہے اور کرب میں مبتلا کرتا ہے اس وقت تک کہ میں مصور کے اس سفید کینوس پر اس کالفظی عکس اتار نہ دوں۔بھلا جو قریب کے سیارے ہیں وہاں انسانی زندگی کے نقوش کہاں ہیں جو براہِ راست نشریات کے ذریعے یہاں منعکس کر لوں۔ یہ زندگی ہے یہاں تو ہر طرح کی رنگارنگی ہے بہار ہیں اور بہاریں ہیں مگر ساتھ کرب کی دکھ کی پکار ہے جس کی بازگشت کانوں کے اور آنکھوں کے راستے میرے دل میں سما جاتی ہے‘ سو جب تک ان کلبلاتے ہوئے سانپوں پر الفاظ کے چھینٹے نہ دوں یہ کہاں سر نیچا کرتے ہیں۔سو دل کا سکون پانے کے لئے قلم کو آزاد چھوڑنا ہوتا ہے۔کوئی تو دل کی تنہائی کو آواز بنا کر جب ان کا درد حد سے گذرے تو گا کر دل کا بخار نکال لیتے ہیں۔سو ہم ٹھہرے لفظوں کے سوداگر ہم تو یہی بین بجاتے ہیں جسے کالم کہتے ہیں او ران سر اٹھائے کوبرا سانپوں کوپھونک سے قابو کر لیتے ہیں۔یہی وہ کوشش ہے جس میں اگر کامیاب ہوئے تو سکندر بن جاتے ہیں او رناکام ہوئے تو دم دبا کر پتلی گلی کی راہ سے نکل لیتے ہیں۔ہم مواد کہاں سے لاتے ہیں جو کالموں میں منجی پیڑی ٹھونک کر فٹ کریں۔
یہی معاشرہ ہے جس کے مسائل کو روز نگاہوں سے گھورتے ہیں اور آنکھوں سے بغور دیکھتے ہیں اور اس پر اپنے دل سے کہتے ہیں کہ اے غنچہ لانا تو میرا قلم دان اور پھر قلم کو بھی چھوڑ چھاڑ کر کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیوں کو رقص پر مجبور کر دیتے ہیں۔یونہی اس جلے ہوئے دل کی راکھ پر انگلیاں پھیرتے ہیں۔کیونکہ ”جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا۔ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے“۔مگر ہمیں راکھ میں بھی جستجو کی تلاش ہوتی ہے‘یادوں کی راکھ میں جب انگلیاں گھمائیں تو کسی کی تصویر بن جائے‘ اسی طرح کسی کالم کی شکل بھی تو بن جاتی ہے۔”میں نے تویونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں۔ دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی“۔ہمارے ہاں کے اتنے مسائل ہیں کہ جن پر اگر قلم اٹھایا جائے تو ہاتھ شل ہو جائیں مگر مسائل کے اظہار کا بیان مکمل نہ ہو پائے۔”لکھتے رہے جنوں کی حکایات ِ خونچکاں۔ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے“۔اگر چہ ان الفاظ کا اثر نہ ہو مگر ہم تو لکھیں گے۔ گزری ہے جو اس دل پہ رقم کرتے رہیں گے“۔موضوعات زور آور ہوتے ہیں جیسے منہ زور گھوڑا اورجیسے موجودہ ایام کا سیلاب ِ بلا جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔پھر یہ عنوان اتنا زور رکھتا ہے کہ گریبان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔اتنا توانا ہے کہ اس کو لکھنا نہیں پ ڑتا یہ خود کو از خود لکھواتا ہے کہ زبردستی ان منہ زور لہروں کو اپنے گھر تو لے کر نہ آنا پڑے یہ تو خود بخود ہر گھر تک پہنچ رہی ہیں اور کہیں کوئی تھپیڑا ایسا ہوتا ہے کہ منہ پرچانٹے کی طرح لگ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے اپنے رخسار کی سرخی سیاہی میں بدل کر کاغذ پر کالم نویسی کا ڈول ڈالتی ہے۔