صارفین کی طا قت 

مہنگا ئی کا رونا سب روتے ہیں مگر مہنگا ئی کو قا بو کر نے کے لئے کوئی میدان میں نہیں آتا گذشتہ ہفتے بجلی کے بلوں میں تیل کی قیمت ڈال کر دو ہزار کو سات ہزار تک لے جا نے کے خلا ف عوام سڑکوں پر آئے تو حکومت نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (FPA) کے نا م سے لگا ہوا ٹیکس واپس لے لیا یہ صارفین کی طا قت ہے اور صارفین کو اس طا قت کا اندازہ بھی ہے جو لوگ بازار کے نر خوں پر ریسرچ کر تے ہیں یا بازار کے نرخوں کا روزانہ حساب دیکھتے ہیں ان کی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ مہنگا ئی تین طرح کی ہو تی ہے پہلی قسم وہ ہے جو عالمی سطح پر تیل اور ڈالر کی قیمت میں اضا فے سے آتی ہے دوسری قسم وہ ہے جو ملکی سطح پر اشیا کی طلب بڑھنے اور رسد کم ہونے سے آتی ہے، تیسری قسم وہ ہے جو صارفین کی غلطی سے آتی ہے اور پا کستان میں مہنگا ئی زیا دہ تر صارفین کی غلطیوں سے آتی ہے یہ بہت بڑی بات ہے اس کی وضا حت ضروری ہے صارف کو انگریزی میں کنزیو مر کہتے ہیں اور ما رکٹینگ کے اصولول میں صارف یا کنزیو مر کو ریڑھ کی ہڈی کا در جہ دیا جا تا ہے کیونکہ ما رکیٹ کی طا قتیں صارف یا کنزیو مر کی پسند اور نا پسند کو دیکھتی ہیں اس مقصد کے لئے بڑی بڑی رقوم خر چ کر کے سروے کر تی ہیں سروے کے نتیجے میں آنے والی مصنو عات یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کر تی ہیں مثلا ً اگر صارفین کی 51فیصد تعداد کسی پراڈکٹ کی مو جو دہ قیمت پر مطمئن ہے تو مارکیٹ میں اس کی نئی قیمت میں 10فیصد اضا فہ کیا جا تا ہے اگر صارف مطمئن نہیں تو قیمت میں کمی لا ئی جا تی ہے ما رکیٹ پر راج کر نے والی طاقتیں ہر حال میں اپنا پروڈکٹ بیچنا چاہتی ہیں اور صارفین کا اعتما د یا تعاون حا صل کرنا چاہتی ہیں کسی پراڈکٹ کے خلاف صارفین احتجا ج کریں تو کار خا نے کی بڑی بد نا می ہو تی ہے سر ما یے کا نقصان ہو تا ہے دوسری مثال یہ ہے کہ تھوک فروش اور پر چون فروش نقلی اور غیر معیا ری گھی، چائے مصا لحہ وغیرہ اصلی اور معیا ری مال کی قیمت پر بیچتا ہے، صارفین کسی چون و چرا کے بغیر خرید تے ہیں سرکاری مجسٹریٹ چھا پہ مار کر نقلی پرو ڈکٹ کو ضبط کرے، دکا ن یا کارخا نے کو بند کرے تو قانونی کار وائی کیلئے صارفین گواہی اور شہا دت دینے پر اما دہ نہیں ہوتے، شکا یت کرنے والا بھی اپنا نا م ظاہر نہیں کر تا،صارفین نے سڑ کوں پر آکر بجلی کے بلوں میں عارضی اور معمو لی ریلیف حا صل کیا ہے اس سلسلے کو یہاں ختم نہیں ہونا چا ہئے، کسی بھی ملک میں مو بائل فون کارڈ یا ایزی لوڈ پر صارف سے ٹیکس نہیں کا ٹا جا تا، 100روپے ادا کریں تو 100روپے کا بیلنس ملتا ہے۔ ہمارے ہاں آپ 100روپے کا بیلنس لے لیں تو 28روپے کا ٹیکس لیا جا تا ہے پیکیج لے لیں تو 20روپے کاٹے جا تے ہیں۔ موبائل فون صارفین اگر متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوسکتاہے صارفین کی بڑی طاقت ہے اور ترقیافتہ ممالک میں صارفین طاقت کے ذریعے ہی معمول کی زندگی میں سہولیات حاصل کی گئی ہیں۔