بیانیہ تو ہمارا من بھاتا مشغلہ ہے کہ ٹریفک سگنل کو توڑتے پھرتے ہیں بلکہ دوڑتے اور بھاگتے چلے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب ٹریفک سگنل ہو تو پھر وہاں پولیس کی نگرانی کیوں ہو۔مگر ہمارے ہاں یہ ضروری ہے کہ دروازے پر تالا لگاکر اسی گیٹ پر چوکیدار بھی بٹھا کر جاؤ۔ بلکہ وہاں مرکزی دروازے پر کیمرہ بھی نصب ہو جو ہر آنے جانے والے پر نگاہ رکھے۔بلکہ اس حد تک کہ بعض اداروں کے مین گیٹ اور اندر عمارت کے حساس کمروں میں لگے کیمرے جب آفس بند بھی ہو جائے تو سیٹلائیٹ کے ذریعے بڑے صاحب کے موبائل پر خالی ڈھنڈار آفس کے اندرونی مناظر دکھاتے ہیں۔ان حالات میں تو ٹریفک سگنل کو توڑنا معمولی بات ہے۔یہاں تو تالے توڑ کر اوپر لگے کیمرے نوچ کر پورا سسٹم ساتھ لے کر وہاں چوری چکاری کے بعد فرار ہو جاتے ہیں۔ایسے میں ٹریفک سگنل تلے کھڑی ٹریفک میں سے ہو کر کچھ موٹر سائیکل سوار جو تین تین بندوں کی صورت میں ایک بائیک پر سوار ہوتے ہیں پورے ٹریفک کو ساکن چھوڑ کر اس میں سے سانپ کی طرح بل کھا کر نکل جاتے ہیں۔بلکہ میں کہوں ان میں سے بعض تو بیوی بچوں سمیت وہاں سے قانون کی دھجیاں اڑا کر نکلتے ہیں۔اب ٹریفک سپاہی ان کے پیچھے تعاقب کرنے کو دوڑ لگائے یا باقی گاڑیوں کا خیال کرے کہ وہ بھی کہیں اس باوردی اہل کار کی غیر موجودگی میں نکل کر افراتفری نہ مچا دیں۔ ساکن ٹریفک میں موٹر سائیکل والوں کو نکل بھاگنے کا بھر پور موقع حاصل ہوتا ہے۔ گاڑیوں والے بھی تو اتنا صبر کرنے والے نہیں۔ صرف یہ ہے کہ ان کو موقع نہیں ملتا۔ کیونکہ وہ یہاں نہیں تو اگلے چوک پر نمبر پلیٹ اور رنگ کی وجہ سے دھر لئے جا سکتے ہیں۔چلو جو نوجوان ہیں وہ تو اسی طرح غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کرتے ہیں۔ انھیں کسی قانون کا پاس نہیں ہوتا۔مگر یہاں گذری عمر کے لوگ بھی اپنی موٹر بائیک کو بیچ میں سے نکال کر بے صبری کے عالم میں نکل لیتے ہیں۔پھر ایک آدھ چار پایوں کی گاڑی والا بھی ایسا کرتا ہے جب اس کے انتظار کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ٹریفک بہاؤ میں جو خلل پیدا ہوتا ہے اور کسی ایکسیڈینٹ کا خطرہ موجود ہوتا ہے ان لوگوں کوا س قسم کے کسی ڈر کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر حادثے کو چھوڑیں قانون سب کے لئے ہے او ربرابر ہے۔وہ اس بات کی تو پروا کریں کہ قانون موجود ہے جو ظاہر ہے کہیں بھی ہو اور کسی بھی شعبہ زندگی میں شہریو ں کے فائدے کے لئے ہوتا ہے۔مگر ان کو اپنے ہی فائدے کا احساس نہیں۔افسوس ان پر ہوتا ہے جو بائیک کی ٹینکی پر دو بچے بٹھا کر ایک کو میاں بیوی کے بیچ میں پیوست کر کے ایک بچے کو امی کی گود میں سلا کر بارش ہو یا کڑی دھوپ ہو سگنل کو ٹریفک سپاہی کی موجودگی میں اگنور کر کے نکل جاتے ہیں۔ایسے میں ننھے منے بچوں کے ہوتے ہوئے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔مگر کمال یہ ہے کہ ان کو ذرا برابر پروا نہیں ہوتی۔ سڑک پر جائیں تو ٹریفک کے بہاؤ میں اچانک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اس شہر میں تو آدمی اپنی جان ہتھیلی پر لے کر گھومتا ہے۔کیونکہ یہاں تو عوام کی طرف سے ٹریفک کے معاملے میں لاقانونیت کا راج ہے۔ ایسے میں کسی حادثے کا ہو جانا عین ممکن ہے۔ مگر باہر جہاں قانون کی پاسداری کی جاتی ہے ان ملکوں میں بھی ٹریفک کے معاملے میں بہترین سسٹم ہوتے سوتے جب حادثات رونما ہو جاتے ہیں تو ایسے میں ہمارے ہاں تو حادثات کا ہونا عین امکان میں ہے‘باہر ملکوں میں تو صرف ٹریفک سگنل ہے جو روشن ہوتا ہے کبھی سرخ زرد کبھی سبز۔مگر وہاں کوئی بھی ٹریفک کا رکھوالا موجود نہیں ہوتا۔ گاڑیاں آتی ہیں رکتی ہیں پھر سگنل روشن ہوجانے پر نکل جاتی ہیں۔ ایک بار تو ہم سے بھی ایک اچھا کام سرزد ہوا۔یہاں ہمارے ہاں پشاور میں ایک بار دیکھا تورات گئے ایک مقام پر جب سرخ بتی روشن ہوئی تو اگلی گاڑی رک گئی۔وہاں نہ تو ٹریفک پولیس تھی اور نہ ہی کوئی اورگاڑی تھی۔ مگر اس کے ضمیر میں یہ بات تھی کہ جو کام غلط ہے وہ غلط ہے۔میں بھی نکل ہی جاتا کیونکہ راستے میں کچھ بھی مزاحمت کرنے کوموجود نہیں تھا۔ مگر مجھے اس گاڑی والے سے شرم محسوس ہوئی تو میں بھی اس کے پیچھے جا کر رک گیا۔بندہ ایک دوسرے سے سیکھتا ہے۔اگر ہم ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کریں گے تو دوسرے اس پر عمل کریں گے۔