زیرزمین پانی بیش قیمت ’قدرتی ذریعہ‘ اور ’وسیلہ‘ ہے لیکن اِس کی ’ناشکری‘ عام ہے جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے زیرزمین پانی کو محفوظ رکھا جائے اور اِس سے استفادہ کرتے ہوئے ’پانی کا اسراف‘ نہ کیا جائے۔ اِس مقصد کے لئے ہر خاص و عام اور حکومت کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور ایسی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں پر پابندی عائد ہونی چاہئے جو زیرزمین پانی کے ذخیرے تک رسائی حاصل کر کے اِس کا غیرضروری استعمال کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں پمپنگ و سروس سٹیشنوں کی بھرمار جہاں پینے کے صاف پانی جیسی نعمت کا ضیاع کر رہے ہیں وہیں پانی کو آلودہ بھی کیا جا رہا ہے اور اِس کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہئے۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صرف آبادی و رقبے کے لحاظ سے بڑے شہروں (میٹروپولیٹن سٹیز) ہی میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں کی صورتحال بھی غیرتسلی بخش ہے اور کم یا زیادہ آلودہ پانی پینے سے شہری و دیہی علاقوں میں یکساں صحت عامہ کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی زیرزمین آبی ذخیرے سے جب استفادہ کرنا شروع کیا جاتا ہے اور اُس میں پانی کی سطح کم ہوتے ہوئے ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے تو قدرت کے بنائے ہوئے نظام کے تحت وہ ذخیرہ خودبخود بند ہو جاتا ہے اور اُس وقت تک اُس سے دوبارہ پانی حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک اُس میں پانی کی سطح ایک خاص حد تک بلند نہ ہو۔ آبی ماہرین جس ایک نکتے کی طرف توجہ مبذول کروا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ زیرزمین پانی کے ذخائر کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ شہری علاقوں کا رہن سہن پانی احتیاط سے استعمال کرنے کے بارے میں خاطرخواہ شعور اور حساسیت نہیں رکھتا جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ زیرزمین پانی کے ذخیرے کو ’مال ِمفت‘ نہ سمجھا جائے اور اِس کی بوند بوند کی ہر ممکنہ حد تک حفاظت کی جائے۔ شہری علاقوں میں عموماً پانی کا چھڑکاؤ کہیں گردوغبار تو کہیں گرمی کی شدت کم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور اِس بے معنی کام کے لئے زیرزمین سے صاف پانی نکال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح رہائشگاہوں اور موٹر گاڑیوں کو دھونے کا عمل بھی بار بار اور بلاضرورت یا بنا سوچے سمجھے کیا جاتا ہے جس میں پانی کا بے تحاشہ ضیاع ہوتاہے۔ آبی ماہرین کے مطابق ”اسلام نے پانی کے اسراف سے منع کرتے ہوئے اِس کے انتہائی کم (یعنی محتاط) استعمال کی اجازت دی ہے۔زیرزمین پانی کا ذخیرے بھرنے کے لئے بارش‘ سبزہ زار‘ کھیت اور درختوں کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ زرعی اراضی اور سبزہ زاروں کا رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے اِس لئے زیرزمین پانی کے ذخائر کی تعداد میں کمی آ رہی ہے اور اگر یہی رجحان برقرار رہا کہ زراعت کے لئے استعمال ہونے والی اراضی کم ہوتی رہی تو صرف بارشوں کا ہونا کافی نہیں ہوگا اور پانی کی قلت ہوئی تو خدانخواستہ ہنستے بستے اور پھلتے پھولتے شہر صفحہئ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ آبی ماہرین کے مطابق ایسے کئی شہروں کا ذکر آج تاریخ کی کتابوں یا کھنڈرات کی صورت ملتا ہے جو کبھی آباد تھے لیکن وہاں دستیاب پانی ختم ہونے کی وجہ سے یہ شہر بھی اپنی تمام تر ترقی اور ثقافت کے باوجود بھی باقی نہ رہ سکے۔ شہری علاقوں میں جب بارش ہوتی ہے تو اِس بارش کا بہت سارا پانی نالے نالیوں کے ذریعے نکاس کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کا ذخیرہ نہیں بھرتا لیکن شہر اُس ذخیرے سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پشاور کے چند حصوں میں زیرزمین پانی کے حصول پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پورے ضلع پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر تمام اضلاع میں زیرزمین پانی کے ذخائر تک رسائی محدود کی جائے اور زیرزمین پانی کو قومی ملکیت قرار دیتے ہوئے آبی ذرائع کا تحفظ اور اِس سے محتاط استفادہ کیا جائے۔ خیبرپختونخوا میں بھی زیرزمین پانی تک رسائی کے لئے ’لائسنسنگ سسٹم‘ متعارف کرانے اور ’ایکویفر چارجز‘ لاگو کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں وصول کئے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے نجی رہائشی منصوبوں میں نصب ٹیوب ویلوں کے ذریعے ضرورت سے زیادہ پانی حاصل نہیں کیا جائے گا اور دوسری طرف متعلقہ سرکاری ادارے کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوگی جس سے زیرزمین پانی کے ذخائر میں اضافے کی مد میں سرمایہ کاری و آبی وسائل کی ترقی و منصوبہ بندی کی جا سکے گی۔ اِسی طرح موٹرگاڑیوں کو دھونے (سروس) کے لئے ’ری سائیکلنگ پلانٹس‘ کی تنصیب کو لازمی قرار دیا جائے جبکہ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ پشاور جیسے مرکزی شہر میں اس حوالے سے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، چراغ تلے اِس اندھیرے کو روشنی سے جس قدر جلد تبدیل کیا جائے اُتنا ہی ماحول اور اہل زمین کے لئے اچھا ہوگا۔