چین میں کفایت شعاری قوانین کی خلاف ورزی پر 8ہزار سے زائد اہلکاروں کو سزا دی گئی ہے، مجموعی طور پر 4ہزار کو بیوروکریسی رکاوٹوں میں ملوث ہونے پر یا رسمی کاروائیوں میں اُلجھانے پر سزائیں دی گئی ہیں۔سماجی و معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں فرائض سے غفلت ایک نمایاں مسئلہ تھا 4 ہزار افراد کو ذاتی فوائد حاصل کرنے اور فضول خرچی والا طرز عمل اختیار کرنے پر سزا دی گئی‘ ان میں تحائف دینا یا قبول کرنا شامل ہے‘ یاد رہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے کفایت شعاری سے نمٹنے کیلئے2012میں 8نکاتی ضابطے کا اعلان کیا تھا۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ بیورو کریسی کی ذمہ واری ہوتی ہے کہ وہ حکومت وقت کے سیاسی منشور کو عملی جامہ پہنائے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر بیورو کریسی صدق دل سے حکومتی پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کرے تو حکومتی پارٹی عوام کی نظروں میں سرخ رو ہو جاتی ہے۔
ہم نے کئی حکومتوں کواس لئے ناکام ہوتے دیکھا کہ سرکاری اہلکاروں نے ان کے منشور پر عمل درآمد میں سستی یا بے دلی کا مظاہرہ کیا یا ان کی کارکردگی ایسی تھی کہ جو حکومت وقت کے لئے باعث ندامت بنی۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو وہاں سزا اور جزا کا نظام کافی مضبوط ہے اور اسی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں وہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد ان اقدامات کا بغور جائزہ لیں کہ جو چین نے اٹھا کر اپنے عوام کی ایک اکثریت کو جو غربت کی لکیر سے نیچے والی زندگی گزار رہی تھی اسے اس لکیر سے باہر نکالا اور معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا۔ یاد رہے کہ چین میں موجودہ نظام کے داعی 1950میں بر سر اقتدار آئے یعنی ہم سے تین برس بعد اور انہوں نے زندگی کے ہر میدان میں چین کو ترقی و خوشحالی کی بلندی پر پہنچادیا ہے۔ اب کچھ تذکرہ عالمی امور کا ہوجائے جہاں روس اور چین عنقریب مشترکہ فوجی مشقیں کریں گے۔
روس کے مشرق بعید میں ہونیوالی مشقوں میں سوویت یونین سے الگ ہونے والے کئی ممالک بھی شریک ہوں گے‘ بیجنگ کا موقف ہے کہ اس کی شمولیت کا یوکرین اور تائیوان سے متعلق کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ووسٹوک 2022مشقیں یکم ستمبر سے شروع ہو کر سات تاریخ تک جاری رہیں گی۔روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مشقوں میں حصہ لینے والے غیر ملکی دستے پہلے ہی ساحلی پرائمورسکی علاقے میں واقع ایک تربیتی مرکز پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے مشقوں کی تیاری کیلئے عسکری آلات اور ہتھیار حاصل کرنا بھی شروع کر دئیے ہیں‘ان مشقوں میں چین، لاؤس، منگولیا، نکاراگوا، الجزائر، شام اور سوویت یونین میں شامل کئی سابق ریاستیں شامل ہوں گی۔یہ جنگی مشقیں روس کے مشرق بعید میں سات فائرنگ رینجز میں کی جائیں گی۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مشقوں میں روسی فضائیہ کے دستے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار اور فوجی کارگو طیارے بھی حصہ لیں گے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں میں یوکرین پر روسی حملے اور تائیوان کے لئے امریکی حمایت کے سبب پیدا ہونے والی کشیدگی کے درمیان چین اور روس کے دفاعی تعلقات مضبوط ہوتے رہے ہیں۔ چین نے یوکرین کی جنگ کے لیے مغرب کی اشتعال انگیزی کو مورد الزام ٹھہرایا اور ماسکو پر مغربی ممالک کی پابندیوں کی بھی کھل کر مخالفت کا اظہار کیا ہے۔دوسری طرف ماسکو نے بھی ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران بیجنگ کی حمایت کی ہے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس اور چین نے مل کر امریکہ کو حیران وپریشان کر دیا ہے۔