غلطیاں‘ اسباق اور کرکٹ

ایشیئن کپ 2022ء کے لئے جاری کرکٹ مقابلوں میں پاکستان ٹیم نے اگرچہ جدوجہد کا آغاز بھارت کے خلاف ناکامی سے کیا ہے لیکن اِس ناکامی کی وجوہات پر نظر رکھنی چاہئے۔ شائقین کرکٹ کیلئے بھارت سے شکست کسی صدمے سے کم نہیں اور یہی وجہ ہے ’ٹیم گرین‘ پر تنقید کرنے والے جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ قومی ٹیم نے اُس وقت غلطی کی جبکہ غلطی کرنے کی گنجائش بالکل بھی نہیں تھی اور نہ ہی شائقین کرکٹ کو ایسی غلطیاں کرنے توقع تھی۔ بھارت کے خلاف 148 رنز کا ہدف زیادہ نہیں تھا جسے مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ محتاط کھیل کا مظاہرہ ہونا چاہئے تھا۔

 کم سکور والے مقابلوں میں تو ویسے بھی لمحے بھر کی غفلت میچ کا فیصلہ کردیتی ہے لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے درجنوں غلطیاں کیں بلکہ کئی ایک نے اپنی غلطیاں دہرائیں! اننگ کے آغاز ہی میں ’ویرات کوہلی‘ کا کیچ چھوڑا گیا پھر چند مس فیلڈز کیں گئیں بلکہ ایک بار تو چوکا بھی دے دیا گیا یوں پوری فیاضی کے ساتھ آٹھ وائیڈز سمیت بارہ فاضل رنز دینے والی ٹیم سے کس طرح توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ کسی بھی وقت کھیل پر حاوی ہو جائے گی!؟گزشتہ سال متحدہ عرب امارات ہی کے میدانوں پر ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘ میں زیادہ تر میچز اُن ٹیموں نے جیتے‘ جنہوں نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔

 یہی تسلسل ایشیا کپ میں بھی نظر آ رہا ہے۔ افغانستان اور سری لنکا کے مقابلے میں دیکھا گیا کہ کس طرح پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے افغانستان نے سری لنکا کو صرف 105رنز پر ڈھیر کردیا تو شاہین شاہ آفریدی کے بغیر کھیلنے والی قومی ٹیم آدھا مقابلہ تو ٹاس کا سکّہ اچھالتے ہی ہار گئی تھی! پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان نے ابتدائی چار اوورز میں سولہ ڈاٹ بالز کھیلیں اور پاور پلے میں بابر اعظم اور فخر زمان دونوں کی وکٹ بھی کھو بیٹھا۔ پھر معاملات کسی حد تک سنبھل گئے۔ بارہ اوورز میں ستاسی رنز تک صرف دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ افتخار کا ہاتھ بھی کھل چکا تھا اور پاکستان آخری آٹھ اوورز کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نظر آ رہا تھا لیکن ’ہاردک پانڈیا‘ نے پاکستان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے نہ صرف 45رنز کی رضوان افتخار پارٹنرشپ کا خاتمہ کیا بلکہ 2 اوورز میں دونوں بلے بازوں کے علاؤہ خوشدل شاہ کو بھی چلتا کردیا۔ پاکستان کی آدھی ٹیم سکور کو تہرے ہندسے تک پہنچانے سے بھی پہلے میدان سے واپس آچکی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب نے اٹھتی ہوئی گیندوں پر وکٹیں دی۔ 

شارٹ پچ بالز پر پاکستانی بلے بازوں کی کمزوری تو سامنے آئی ہی‘ ساتھ مڈل آرڈر کی مضبوطی کی قلعی بھی کھل گئی۔ اگر کھیل کے آخر میں شاہنواز دھانی اور حارث رؤف کچھ ہمت نہ کرتے تو پاکستان ہرگز 147رنز تک نہ پہنچتا۔ پوری اننگ میں سب سے زیادہ سٹرائیک ریٹ سے یہی دو بیٹسمین کھیلے اور انہی کی بدولت پاکستان آخری پانچ اوورز میں سینتالیس رنز بنانے میں کامیاب ہوا لیکن جنہیں یہ کام کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا یعنی خوشدل شاہ‘ آصف علی اور شاداب خان وہ سب ناکام واپس آئے! بھارت نے آخری اوور میں پاکستان کو آل آؤٹ کیا اور اس کے فاسٹ باؤلرز کو تاریخ میں پہلی بار کسی حریف کی تمام دس وکٹیں ملیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح افغان بلے بازوں نے سری لنکن باؤلنگ لائن کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔

 پاکستان کا بھی وہی حال ہوتا لیکن نسیم شاہ کے ابتدائی اوور نے ہی سنسنی پھیلا دی۔ اپنے پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے پہلے ہی اوور میں نسیم نے راہول کو کلین بولڈ کیا اور پھر ویرات کوہلی کو بھی سلپ میں کیچ آؤٹ کرا دیتے‘ اگر فخر زمان کیچ پکڑ لیتے۔ بہرحال مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی باؤلرز نے اپنے قد سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔ جب بھارت کو بتیس رنز کی ضرورت تھی اور میچ خاصی حد تک برابر تھا‘ تب پاکستان کو سلو اوور ریٹ پر پنالٹی پڑ گئی اور سزا یہ ملی کہ وہ دائرے سے باہر چار سے زیادہ فیلڈرز نہیں رکھ سکتا۔بہرحال امپائروں کے اس فیصلے نے گویا میچ کا خاتمہ ہی کردیا۔ ان تمام عوامل کی بدولت پاکستان کے شائقین کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی‘ جو پچھلے سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ والی کارکردگی دوبارہ دیکھنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔