یورپ میں خشک سالی

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں بالعموم اور یورپ میں بالخصوص شدید گرمی اور خشک سالی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔یورپ کی عالمی خشک سالی مشاہدہ گاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق براعظم یورپ کے کئی ممالک اٹلی، سپین، پرتگال، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، رومانیہ، ہنگری، یوکرین، آئرلینڈ اور برطانیہ میں خشک سالی کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ یہاں دریاؤں میں سے اکثر کسی نہ کسی حد تک خشک ہو چکے ہیں اور یورپ کو پچھلے پانچ سو سالوں میں سب سے بد ترین خشک سالی کا سامنا ہے۔ اس کا دو تہائی حصہ خشک سالی سے متاثر ہے، 47 فیصد حصے میں مٹی سوکھ چکی ہے اور مزید سترہ فیصد میں بھی زمین جلد خشک اور سبزہ سوکھ جائے گا۔ اس میں پچھلے دو مہینے سے جو شدت آئی ہے اس سے پانی کی سطح نیچے جانے، کشتی رانی کم ہونے، جنگلات میں آگ لگنے اور بجلی اور فصلوں کی پیداوار بالترتیب بیس فیصد اور سترہ فیصد متاثر ہونے کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔خلاف معمول خشک موسم سرما اور شدید موسم گرما کے باعث اٹلی سے برطانیہ تک ساٹھ فیصد براعظم یورپ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے جس سے زیادہ تر دریا خشک اور زمین کھردری ہوگئی ہے۔

 اس خشک سالی نے یورپ بھر میں زراعت سے صنعتی شعبے تک ہر شعبہ زندگی کو متاثرکردیا ہے اور حکومتوں نے پانی کی رسد کم کرنے اور عوام سے کم پانی استعمال کرنے کی اپیل کی ہے۔ اندازہ ہے کہ کم زرعی و توانائی پیداوار اور رسد کی کمی کے باعث یورپ بھر میں مصارف زندگی بڑھ سکتے ہیں۔موسمیاتی محققین کا خیال ہے کہ شدید گرمی و خشک سالی پچھلے دس سال میں یورپ کی خام قومی پیداوار میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد کمی لائی تھی مگر اس سال نقصان کافی زیادہ ہوگا۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یورپ بھر میں ریکارڈ درجہ حرارت دیکھے گئے ہیں۔ اٹلی، یونان، فرانس اور سپین میں جنگلات میں آگ بھڑک اٹھنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں جن سے فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے روسی گیس کی درآمد میں کمی اور تیل کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔

 برطانیہ میں جولائی کے مہینے میں درجہ حرارت چالیس سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جس سے وہاں آگ لگنے کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا حتی کہ انیس جولائی لندن میں آگ بجھانے کے عملے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد مصروف ترین دن ثابت ہوا۔ اس روز فائر بریگیڈ عملے کو آگ بجھانے کیلئے چھبیس سو کالیں آئیں جبکہ عموما ًیہ تعداد تین سے پانچ سو روزانہ کے درمیان ہوتی ہے۔گھریلو اور صنعتی ضرورت کیلئے بطور ایندھن کوئلہ، تیل اور گیس کے زیادہ استعمال سے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو ہماری فضا میں گرمی کو پھنساتے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج 2021 میں 6 فیصد بڑھ کر 36.3 بلین ٹن ہو گیا جو معلوم انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔

اگر دنیا نے عالمی حدت کو کم کرنے کیلئے اجتماعی اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے اور ماحولیاتی تبدیلی پر کام نہ کیا تو 2060 تک دنیا کو 44 کھرب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ تمام ممالک کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ارتکاز 2030 تک کم ازکم نصف لانا ہوگا۔ یاد رہے صرف غریب اور گرم ممالک عالمی حدت اور ان ماحولیاتی مسائل سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ امیر ممالک بھی عالمی حدت کے اثرات سے بچ نہیں سکتے۔ کینیڈا کو پچھلے سال آگ اور جرمنی کو سیلاب نے اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگایا تھا اور کیلیفورنیا میں بھی 5لاکھ ایکڑ جنگلات میں آگ لگی تھی۔اگرچہ قابل تجدید توانائی کا استعمال زیادہ اور کوئلے کا کم ہو رہا ہے لیکن موجودہ منصوبے اور کام کی رفتار لوگوں کی حفاظت کے لئے کافی نہیں ہیں۔ 

دنیا میں 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار جنگیں، تنازعات اور صنعتی ممالک ہیں۔ دنیا کے وہ 10ممالک جن کا کاربن اخراج سب سے زیادہ ہے ان میں چین 9.3 گیگا ٹن، امریکہ 4.8 گیگا ٹن اور بھارت 2.2 گیگا ٹن کیساتھ بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ دنیا کو اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے چند اقدامات کرنے ہوں گے‘ معدنی ایندھن کا استعمال پہلے کم اور ختم کیا جائے، قابل تجدید توانائی کی طرف رجوع کیا جائے، کام، خوراک اور سفر بارے انسان اپنی عادتیں بدل ڈالیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور طاقتور گرین ہاؤس گیسوں، جیسے میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ، کا اخراج کم کیا جائے۔