خیبر پختونخوا حکومت کے زیر انتظام نشے سے پاک پشاور منصوبے کا پہلا فیز مکمل ہو گیا ہے اس مرحلے کے تحت سڑ کوں، ریلوے پھاٹکوں اور بازاروں میں موجود 1200آئس اور ہیروئن کے عادی نشئی افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی کو بحالی مراکز میں تین ماہ کا علاج مکمل کرنے کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے اس سلسلے میں گزشتہ روز ڈرگ فری پشاور کے عنوان سے ایک تقریب پشاورمیں منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان تھے جب کہ اس موقع پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر شہزاد بنگش، کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود،ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان سمیت بعض صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔
واضح رہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے سارے صوبے میں بالعموم اور پشاور شہر میں بالخصوص ہیروئن اور آئس کے عادی افراد کی اتنی بھرمار ہوگئی تھی کہ شہر کا شایدہی کوئی کوچہ اور گلی ایسی تھی جہاں نشے میں دھت ان نشئی افراد کے غول درغول نظر نہیں آتے تھے۔سینکڑوں کے حساب سے نشے کی لت میں مبتلا ان بدقسمت اور بے سروساماں نوجوانوں کو جہاں معاشرے کی حقارت اور نفرت کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا وہاں ان کی بڑے پیمانے پر گنجان آبا دعلاقوں میں موجودگی قانون نافذ کرنے والے اور دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔تاہم اب یہ خوش آئند امر ہے کہ ایک جامع منصوبے کے تحت اس ناسور کے سدباب اور متاثرہ افراد کی بحالی اور ان کے مناسب علاج معالجے اور دیکھ بال کے لئے ایک جامع پروگرام کاآغاز کیا گیا۔
اس ضمن میں کمشنر پشاور ڈویژن کی دلچسپی اور اس مصیبت کو ایک چیلنج کے طورپر قبول کرنے کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔یہ بجا ہے کہ صوبائی حکومت اور بالخصوص وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر شہزاد بنگش کی توجہ اور دلچسپی کے بغیر اس ٹاسک کی انجام دہی کا خواب پایہ تکمیل کونہیں پہنچ سکتا تھا لہٰذا اس سلسلے میں ان کی دلچسپی بھی لائق تحسین ہے اور اس کا کریڈٹ انہیں بھی ضرور ملناچاہئے لیکن جن لوگوں کی شبانہ رو زمحنت اور لگن سے نشے کے ان عادی افراد کو نشے کی لت سے چھٹکارا دلایاگیا اور اس ضمن میں بحالی مرکز میں جن جن افراد نے انتہائی اخلاص اور جانفشانی سے ان متاثرہ افراد کی کونسلنگ کی اور انہیں نارمل زندگی میں لانے کے جتن کئے ان کی تعریف اور ان کی کوششوں کااعتراف اور حوصلہ افزائی نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔
گزشتہ روز کی تقریب میں جو1200افراد صحتیاب ہو کر اپنے خاندانوں کے حوالے کئے گئے ہیں یہ وہ پہلا بیج ہے جوان 1800افراد پر مشتمل تھا جو کہ کئی سالوں سے نہ صرف اپنے گھروں سے لاپتہ تھے بلکہ ان کے خاندان والے انہیں مرے ہوئے سمجھ کران کی واپسی سے بھی مایوس ہو چکے تھے اب جب یہ لوگ صحتمند ہو کر اپنے خاندانوں میں واپس لوٹ رہے ہیں تو یہ ان کیساتھ ساتھ ان کے خاندانوں اورخود ہمارے معاشرے کے لئے بھی ایک خوش آئند امرہے۔اس موقع پر کمشنر پشاور کی یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ بحالی کے بعد ان متاثرہ افراد کو طعنے دینا یاپھر ان کو پوڈری،نشئی یاکسی بھی دوسرے نامناسب القابات سے پکارنامناسب نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنا ان کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔
اس موقع پر کمشنر پشاور کایہ اعلان بھی لائق تحسین ہے کہ نشے سے پاک پشاورمہم کے دوسرے مرحلے میں پشاور کی سڑکوں پر موجود 700کے قریب نشے کے باقی ماندہ عادی افراد کوبھی تحویل میں لیکر بحالی مراکز منتقل کیا جائیگا جس سے پشاور نشے کے عادی افراد سے مکمل طور پر صاف ہو جائیگا۔ہم متعلقہ حکومتی اداروں سے یہاں بجا طور پریہ توقع بھی کرتے ہیں کہ اس مہم کو نہ تو یہاں پر ختم کیاجائے گا اور نہ ہی اسے صرف پشاور تک محدود رکھ اجائے گا بلکہ ان کاوشوں کوصوبے کے دیگر علاقوں تک بھی توسیع دی جائے گی۔
اسی طرح پشاور کے تاجروں کی جانب سے صحتیاب ہو نیوالے 381افرادکو روزگار دینے کا اعلان جہاں ان متاثرہ افراد کی دادرسی کا باعث بنے گا وہاں یہ جذبہ معاشرے کے دیگر مخیر حضرات کے لئے بھی ایک قابل تقلید مثال ہے لہٰذاتوقع ہے کہ وہ بھی آگے بڑھ کر ان بحال شدہ افراد کوروزگار کے مواقع دے کر معاشرے کے باعزت شہری بنانے میں اپنا تعمیری کرداراداکریں گے۔