سوچنے کا مقام ہے موسمیاتی تباہی کی قیمت کون ادا کرے صرف امریکہ دنیا کی کل آلودگی کے 20 فیصداخراج کا ذمہ وارہے۔ برطانیہ آلودگی پھیلانے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان عالمی درجہ حرارت میں دیگر ممالک کی نسبتاً کم حصہ ڈالتا ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس نقصان کے ازالہ کا بل کس کو ادا کرنا چاہئے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان کو 10ارب ڈالرز درکارہیں گو کہ اقوام متحدہ نے 137 ملین پاؤنڈاکھٹا کرنے کی درخواست کی ہے۔ اگر ایساہو بھی جاتا ہے تو پاکستان کے نقصان کے ازالے کیلئے یہ رقم سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ امیر ممالک نے ماحول کو سب سے زیادہ آلودہ کیا ہے پر اس کے اثرات کا خمیازہ غریب ممالک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی پہلے سی لڑکھڑاتی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو دھچکاا لگا ہے۔ اس نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی ہے اور ہم جس سخت معاشی بد حالی کا شکار ہیں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کا ایک رستہ تو یہ ہے کہ ہم سب خصوصا ًہماری اشرافیہ کفایت شعاری، سادگی اور قناعت کا رستہ اختیار کرے۔
ہم سب کو اپنے اپنے غیر ضروری اخراجات پر بریک لگانے کی ضرورت ہے۔ ہر شے کے استعمال میں راشننگ وقت کا تقاضا ہے۔ ان سیلابوں سے سبق حاصل کرکے ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے تاکہ آئندہ ہم اس قسم کے حالات سے دو چار نہ ہوں۔اب ایک اہم بین الاقوامی واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے شکست و ریخت کا باعث بننے والے سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گورباچوف جس نے 1985 سے1991 کے دوران اپنے دور اقتدار میں کچھ ایسے اقدامات کئے جس سے سوویت ریاستوں میں آزادی کی لہر اٹھی۔ گزشتہ روز91 برس کی عمر میں ماسکو میں چل بسے۔اگر چہ مغربی دنیا نے ان کو ایک منفرد اور اصلاح پسند رہنما قرار دیا ہے تاہم خود روس کے اندر ان کو سوویت یونین کے شکست وریخت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے کہا کہ گورباچوف ایک ایسے منفرد سیاست داں تھے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گورباچوف کو ایک ”نادر رہنما“قرار دیا جس نے دنیا کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے حوالے سے وہ گورباچوف کی ہمت اور خلوص کے معترف ہیں۔گورباچوف کو امن کے نوبیل انعام سمیت دنیا بھر سے انعامات اور ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ لیکن وہ اپنے ملک میں زیادہ مقبول نہیں تھے۔ روسی ان پر اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین کے منتشر ہو جانے کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور اکثر افراد نے ساری ذمہ داری ان پر ڈال دی تھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ گورباچوف کے ہاتھوں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہی امریکہ کو دنیا کی واحد عالمی طاقت کا درجہ ملاجس کو آج ایک بارپھر روس اور چین نے چیلنج کیا ہے اور اس وقت امریکہ کوافغانستان سمیت کئی محاذوں پر جو ناکامیوں کاسامنا ہوا ہے اس سے اس کی واحد سپرپاور والی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔روس نے صدر پیوٹن کی قیادت میں ایک بار پھر عالمی منظر نامے پر اپنی اہمیت اور طاقت منوائی ہے جبکہ چین بھی سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کو للکار رہا ہے۔