ہمارے معاشرے میں کچھ برائیاں ایسی بھی ہیں کہ جن کو ہم برائی سمجھتے ہی نہیں۔پیٹھ پیچھے باتیں کرنے کو تو ہم گپ شپ کہتے ہیں۔ پھر سات بندوں نے کسی گیدرنگ میں کسی غیر موجود شخصیت کو نشانے پر لیا ہوتا ہے۔خواہ وہ معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔اپنا بھائی بند ہو یا کوئی پیارا یا سوشل میڈیا میں زیادہ نظر آنے والی کوئی ہستی ہو۔پھر اپنا رشتہ دار ہو یا دوست دار ہو کوئی ان ساتوں بندوں کا مشترکہ یار ہو ہم نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔ اس کے خلاف خوب دل کھول کر باتیں کرنا ہے۔ ان میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے بلکہ بہت زیادہ پڑھ لکھ جانے والے بھی شامل ہیں۔مگر ایسے بھی ہیں جو اس قسم کی برائی سے دور بھاگتے ہیں۔ان کے سامنے کسی کی برائی کرو تو اگر آپ کے ڈر کے مارے کہ آپ ناراض ہو جائیں گے وہ اعتراض نہ کرے۔مگر اتنا ضرور کرے گاکہ آپ کی کسی بات کا جواب ہاں میں یا ناں میں نہیں دے گابس خاموش رہ جائے گا۔پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ محفل کے سات آدمی اس دوست کے پیچھے جو وہاں موجود نہیں ہوتا خوب اچھی تقریریں کرتے ہیں۔
ہرکوئی اپنے اس دوست کی وہ کمزوری بتلاتا ہے جو اسی کو معلوم ہے۔اس پر باقی کے اراکینِ محفل شاباشی سے پیٹھ پیچھے براکہنے والے کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس وقت اس نے کہنا ہوتا ہے کہ میں تو پیٹھ پیچھے بات نہیں کرتا میں تو اس کے منہ پر بھی یہ بات کر سکتا ہوں۔اس پر وہاں موجود دوسرے دوستوں کو برائی کرنے والی کی بات پر نہ یقین کرتے ہوئے بھی یقین آ جاتا ہے۔یہ کوئی اچھاکام تو ہے نہیں۔ مگرساتوں پرکوئی اعتراض کرے تو فرماتے ہیں ہم توگپ شپ لگا رہے ہیں۔ مگر ان نادانوں کو پتا نہیں ہوتا کہ اسی محفل میں ان ساتوں کے خلاف بھی بات ہونے والی ہے۔ مگر کسی کومعلوم نہیں ہوتا۔انہیں ساتوں میں سے چھ لوگ دوبارہ کسی اور کے پیچھے بات کریں گے۔ مثلاًساتواں بندہ کہہ دے کہ اچھا جی میں تو چلا پھر ملیں گے۔پھر کسی کا فون بج اٹھے تو وہ تھوڑی دیر کو فون سننے کے لئے کمرے سے باہر نکل جائے تو خود اس کے پیچھے اس کے یہی یار دوست راز کھولنا شروع کر دیں گے۔
پہلا جملہ یہی ہوتا ہے کہ یار یہ کون سا اچھا ہے یہ بھی تو یہی کیا کرتا تھا۔ پھرسارے شروع ہو جاتے ہیں۔یہ برائی یا اس قسم کی برائیاں ہم لوگ خوب ٹھوک بجا کر گپ شپ کے نام پرکرتے ہیں مگر نہ تو ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے اور نہ تو گناہ ہی کااحساس ہوتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک کر رہے ہیں اچھے کو اچھا اوربری بات کو برا کہہ رہے ہیں۔مگر وہ بات جس سے اگلے کی دل آزاری ہو ہم وہ بات محفل میں اس کے خلاف اس کے نہ ہوتے ہوئے کرتے ہیں تو ہمیں بجائے لاج آئے الٹا فخر محسوس ہوتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ذاتِ باری کے ہاں کون زیادہ اچھا ہے۔کیا خبر جس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ بارگاہِ الٰہی میں ان سب اراکینِ محفل میں سے زیادہ قابلِ عزت ہو۔اس پر مجھے یاد آیا کہ اگر بھیڑیوں کو خوراک نہ ملی ہو وہ بھوکے ہوں تو سارے ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر سب کی نگاہ ایک دوسرے پر ہوتی ہے۔وہ دھیان رکھتے ہیں کہ ہم میں سے کس کو ابھی نیند کی جھپکی آئے گی۔
جب ذرا ایک بھیڑیا غافل ہو کر نیند کے ہاتھوں ابھی اونگھ ہی لیتا ہے تو باقی بھیڑیے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ اس کو فوراً سے پہلے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ پھر اس کے گوشت کو سب مزے لے لے کر کھاتے رہتے ہیں۔ یاروں دوستوں کی اس قسم کی محفلوں سے تو تنہائی اچھی ہے۔بندہ تنہا بیٹھا رہے مگر دوسروں کی عیب جوئی نہ کرے۔ہر آدمی میں کوئی نہ کوئی مسئلہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں باقی سب غلط ہیں تو یہ وہی ٹیسٹ ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی سب ٹھیک ہیں یہ اکیلا غلط ہے۔ یہ گول پہیہ کا نظام ہے آج ایک پر آئی ہے تو کل کسی اور پر قسمت نا مہربان ہوگی۔ فراز کا وہ شعر اس وقت میرے نوکِ زباں ہے کہ ”مرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا۔وگرنہ درد کا موسم توشہر بھر میں رہا“۔ کسی کو منع کرو تو کہہ سکتا ہے میں تو سچ بول رہاہوں۔کسی کے عیب نکالنے والے سچ سے تو وہ جھوٹ اچھا ہوا جو کسی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و وقار کو قائم رکھے۔