رود کوہی‘ایک منفرد نظام آبپاشی

ڈیرہ اسماعیل خان میں رائج رود کوہی اریگیشن سسٹم کے بارے میں پہلے بھی اپنے ایک کالم میں ہم نے اس منفرد نظام آبپاشی کے بارے میں کچھ حقائق پیش کئے تھے ۔آج اس کالم کے ذریعہ ہم کچھ مزید معلومات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔  ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کا پہلا تفصیلی اور مکمل بندوبست اراضی  revenue settlement 1872 سے 1879 تک کرایا گیا۔یہ سیٹلمنٹ افسر بینٹ جارج ٹکر کی زیر نگرانی ہوا۔ اس بندوبست میں پہلی بار اراضیات کے موضع وار نقشہ جات، کھیتوں کے شجرے اور نمبروار  رقبے ریکارڈ کئے گئے مواضعات کی حد بندی حقوق ملکیت جمع بندیاں کھتونیاں کھاتے اور مالکان  اور مزارعین کی تفصیلات درج کروائی گئیں۔دامان کا مالیہ غیر مستقل بنیادوں پر کاشت پختہ اور خرابہ کے اصول پر نافذ کیا گیا کیونکہ بارشوں کی کمی اور بے قاعدگی سے بروقت پانی نہیں ملتا جس کی وجہ سے اکثر فصل پکنے سے پہلے سوکھ جاتی ہے اس لئے مالیہ صرف پک جانے والی فصلوں پر لگایا گیا اس بندوبست میں صدیوں سے مروج رود کوہی نظام آبپاشی کے لئے کلیات اور مقامی رواجات کو تحریر میں لا کر ایک سرکاری اور قانونی دستاویز کے طور پر مرتب کیا گیا۔ رود کوہی یعنی پہاڑی نالوں سے آبپاشی کا نظام ایک منفرد نظام ہے جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان میں مروج ہے۔ یہ انوکھا اور دلچسپ نظام آبپاشی ہے لیکن ساتھ ہی نہایت کھٹن اور پیچیدہ بھی ہے۔ یہ نہایت محنت طلب تکلیف دہ اور صبر آمیز طریقہ ہے۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ جتنا یہ مشکل ہے۔ اتنا ہی غیر یقینی بھی ہے۔ ویسے تو  دامان  سارے کا سارا ان پہاڑی نالوں اور ترچھے کھڈوں سے بھرا پڑا ہے لیکن دروں سے نکلنے والی رودیں ذام کہلاتی ہیں یعنی ان میں تھوڑی مقدار میں پانی کا  مستقل بہا ؤرہتا ہے۔ ان میں گومل زام سب سے بڑا ہے جس کا مستقل بہاؤ 150کیوسک ہے۔ اس کے علاوہ ٹانک زام، شیخ حیدر زام، ریلادرابن زام  اور چودواں زام ہیں جن کا مستقل بہاؤ 150 کیوسک ہے۔ گومل زام کا  سب سے بڑا سیلابی ریلا 150000کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔رود کوہی کے نالے سیلابوں میں اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتے ہیں جن کو مقامی زبان میں مٹ کہتے ہیں سیلاب کے پانی کے نالے میں مٹی کا بند بنا کر اسے روکا جاتا ہے اور  سطح زمین پر لاکراس کے  ذریعے کھیتوں کو سیراب کیا جاتاہے۔کھیتوں کے ارد گرد مٹی کے مضبوط لٹھ بنائے جاتے ہیں۔  متعلقہ اراضیات کی آبپاشی کے بعد اسے شکستہ کر دیا جاتا ہے اور پانی رود میں نیچے کے دیگر زمینداروں کی اراضیات میں پہنچا دیا جاتا ہے۔اب کچھ تذکرہ ایک اہم اقدام کا ہوجائے جس کو دیر آئید درست آئید کے مصداق ایک اہم فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، وزیراعظم  شہباز شریف نے شمسی توانائی کے پلانٹس کی جلد تعمیر کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم کے اس اقدام کا مقصد عوام کو بجلی کے بلز میں ریلیف دینا ہے۔وزیراعظم نے شمسی توانائی کے منصوبے پر عملدرآمد کی منظوری دے دی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ بیرون ملک سے مہنگا تیل منگوا کر بجلی بنانے کی بجائے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جائے۔فیصلے سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ اور اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ منصوبے کے تحت مہنگے درآمدی ایندھن (ڈیزل اور فرنس آئل) کی جگہ سولر پاور سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔پہلے مرحلے میں سرکاری عمارتوں، بجلی اور ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلز اور کم یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو سورج کی روشنی سے پیدا ہونے والی بجلی دی جائے گی۔وزیر اعظم نے سولر پاور پلانٹس کی جلد تعمیر اور گرمیوں کا آئندہ موسم شروع ہونے تک عوام کو بجلی کی فراہمی میں خاطر خواہ ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔وزیر اعظم نے متعلقہ اداروں کو منصوبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرنے اور آئندہ ہفتے تمام سٹیک ہولڈرز کی بولیوں سے پہلے (Pre-Bid) کانفرنس منعقد کرنے کی بھی ہدایت کی۔سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کا قدم بہت پہلے اٹھانا چاہئے تھا۔اب بھی اگر اس طرف تیزی کے ساتھ بڑھا جائے تو یہ ایک انقلابی منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے۔اب ذرا موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جہاں  برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے کہا کہ کلائٹمنٹ چینج میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وہ ترقی یافتہ ممالک کی لالچ کی قیمت تباہ کن سیلاب کی شکل میں ادا کر رہا ہے۔پاکستان میں اس سال مون سون بارشوں کے بعد  شدید سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے۔ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہزاروں مویشی ڈوب گئے اور مال و اسباب بہہ گیا۔سیلاب کی اسی غیر معمولی صورت حال کی وجہ کلائمنٹ چینج کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے باعث نہ صرف غیر معمولی بارشیں ہوئیں بلکہ گلیشیئر بھی پگھل گئے اور سیلابی ریلا رہائشی علاقوں کو روندتا گیا۔اس صورت حال پر برطانیہ کی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ گرین ہاؤس کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے لیکن پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلیوں کا بدترین سامنا کرنے والے سرفہرست 10 ممالک میں ہوتا ہے۔برطانوی رکن اسمبلی نے مزید لکھا کہ پاکستان میں 7 ہزار 273 گلیشیئرز ہیں جو قطب شمالی کے بعد تعداد میں سب سے زیادہ ہیں اور اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔کلاڈیا ویب نے اعتراف کیا کہ پاکستان  ترقی یافتہ ممالک کی لالچ کی قیمت چکا رہا ہے۔خیال رہے کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جن کا گرین ہاوس کے عالمی اخراج میں حصہ کہیں زیادہ ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے موسم میں بدترین تغیر آیا ہے لیکن اس خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔