سیاحتی معیشت

خیبرپختونخوا کے سیاحتی پرکشش اور مقبول مراکز میں ’بحرین (Bahrain)‘ کا شمار اِس لحاظ سے بھی منفرد جگہوں میں ہوتا ہے کہ یہ صرف موسم گرما ہی کے دوران نہیں بلکہ سارا سال سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ دریائے سوات کے دائیں کنارے پر واقع اور سطح سمندر سے 4700 فٹ بلند ’بحرین‘ کا نام 2 دریاؤں (سوات اور دارل) کی سرزمین ہے۔ ضلع سوات کی اِس تحصیل کو اِس لحاظ سے بھی سیاحتی نقشے پر مرکزی سیرگاہ کی حیثیت حاصل ہے کہ یہ قرب و جوار کے پہاڑی علاقوں اور سیاحتی مقامات کی سیر کا عزم رکھنے والوں کے لئے مرکزی پڑاؤ (بیس کیمپ) کا درجہ رکھتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سے بحرین کا زمینی فاصلہ‘ ڈھائی سو کلومیٹر (5 گھنٹے) کا ہے اور حال ہی میں ’ایم سولہ‘ نامی قومی شاہراہ کی تعمیروتوسیع کے بعد یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ سڑک کی دونوں اطراف قدرتی مناظر سفر کو خوشگوار بناتے ہیں۔ بحرین کا اوسط درجہ حرارت (سارا سال) 22 ڈگری سنٹی گریڈ رہتا ہے جبکہ کم سے کم اوسط درجہ حرارت 12 ڈگری سنٹی گریڈ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مقام میدانی علاقوں کی گرمی سے ستائے سیاحوں کے لئے کس قدر کشش رکھتا ہوگا۔ موسم کے علاوہ بحرین کی دوسری کشش یہاں کی بارشیں ہیں جو سالانہ 866 ملی میٹر کے تناسب سے برستی ہیں تاہم حالیہ مون سون سیزن کے دوران ’بحرین‘ اور اِس کے نواحی علاقوں میں سالانہ اوسط سے زیادہ بارش ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دریائے سوات اور دریائے دارل میں طغیانی آئی اور چونکہ مذکورہ دونوں دریا ’بحرین‘ کو چھوتے ہوئے گزرتے ہیں اِس لئے ’بحرین‘ تندوتیز سیلابی ریلے کی زد میں آیا۔ خیبرپختونخوا کی ’پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق ”حالیہ مون سون بارشوں کے دوران سیلاب سے کم از کم 19 ہزار 748 گھروں‘ ہوٹلوں اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔“ اِن نقصانات میں بحرین کے ہوٹل بھی شامل ہیں جن پر مقامی آبادی کی آمدن و روزگار کا دارومدار (انحصار) تھا اور یوں سیلاب اپنے ساتھ ’سیاحتی معیشت‘ بھی بہا لے گیا ہے‘ جس کے تخمینہ جات ابھی آنا باقی ہیں!سیلاب کے بعد ’بحرین‘ کھنڈرات کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ سیلاب نے اِس سیاحتی شہر کو ناقابل یقین بنا دیا ہے اور پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ طغیانی اپنے ساتھ پل بھی بہا لے گئی ہے جو بحرین کی ’لائف لائن‘ تھی اور یوں بحرین کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہے جسے جزوی بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ’بحرین‘ میں بارہ سے پندرہ سو سیاحوں کے لئے قیام و طعام کا بندوبست رہتا ہے اور اِس وقت بھی قریب دو سو سیاح پھنسے ہوئے ہیں‘جن سے مقامی ہوٹل مالکان کرایہ اور کھانے پینے کے اخراجات وصول نہیں کر رہے لیکن یہ سلسلہ مزید جاری نہیں رہ سکے گا اور خوردنی اجناس کی قلت پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہے۔ ایک ہفتے سے بجلی نہیں۔ خوراک و ادویات کی کمی ہے اور آلودہ پانی پینے کی وجہ سے اسہال کی بیماری عام ہے۔ اگرچہ ’پی ڈی ایم اے‘ کی جانب سیلاب آنے کی وارننگ جاری کی گئی تھی لیکن لوگ ایسے کسی بھی انتباہ سے بے خبر رہے۔ اگر بروقت اطلاع مل جاتی تو سیاحوں کا انخلاء  اور ہوٹلوں سے قیمتی سازوسامان محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا لیکن دیر رات گئے (اچانک) سیلاب نے کسی کو بھی سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ بحرین میں تاحال آمدورفت پوری طرح بحال نہیں ہو سکی جبکہ سیاحوں کا انخلاء بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ایک جنت نظیر وادی کہ جس کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے اور سیر و تفریح کے لئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاح بحرین (سوات) کا رخ کرتے تھے لیکن آج اُسی بحرین سے نکلنے کے لئے جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے میلوں پیدل چلنے جیسی تکلیف کو بھی گوارہ کیا جا رہا ہے۔ حالیہ سیلاب سے خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی ازالہ اور بحالی درپیش چینلجز میں شامل ہے جن کی تکمیل میں دن ہفتے اور مہینے نہیں بلکہ کئی برس لگیں گے اور اگر آئندہ برس بھی مون سون بارشوں کا مزاج یہی رہا تو نئے سیاحتی مقامات کی تلاش کرنا ہوگی۔ ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا ہے کہ اگر تعمیروترقی کے عمل میں ’ماحول دوست‘ ترجیحات کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا تو ایسی کسی بھی تعمیر و ترقی کی پائیداری اور وجود دائمی نہیں رہے گا۔