میں سچ کہتا ہوں

تو پھر بس یہ ہے کہ بہترین علاج فاقہ ہے۔کوئی ایک ٹائم کرے اور کوئی دو وقت کی روٹی چھوڑ دے۔ کیونکہ اس وقت کوئی اور مناسب آپشن بھی تو نہیں۔چوری چکاری اور کرپشن کرنے سے تو ہم رہے۔کیا کریں گے حالات اس اونچائی پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں سے گر کر نیچے آنا ہے وگرنہ آکسیجن سے خالی چوٹیوں پربھی تو یہی نامرادی کا عالم ہے۔جو مہنگائی پہلے سے تھی  اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔پھر جوڈالر نے اونچی اڑان بھری وہ اگر نیچے آرہاہے تو جس رفتار سے اوپرگیا اس تیزی سے زمین کی طرف پرواز کرے تو لطف ہو۔سونا جس تیز طراری کے ساتھ اوپر گیا وہ اسی رفتار سے مائل بہ زمین ہو تو مانیں۔اس پر موجودہ سیلاب کی صورتِ حال مزید تباہ کن ہے۔جہاں جہاں کھیت کھلیان تھے وہ اگر کڑکتی بجلیوں کے کارن جل کر خاکسترنہ ہوئے تو پانی بھر جانے سے تباہ ہوئے۔ اب جو فصل تھی وہ بربادی کی داستان سنا تی ہے۔اپنے علاقے میں تو جب فصلیں نہ رہیں تو دوسرے علاقوں سے او ردوسرے ملکوں سے اجناس سبزیاں ٹماٹر وغیرہ منگوانا ہیں۔مگر اس کا جو جرمانہ ہے وہ عوام نے دینا ہے۔مہنگائی ساری کی ساری مصنوعی ہے۔اگر ان کے دل میں رحم کی ذرا سی روشنی بھی تو ہو تو وہ اس اندھیر نگری کے چوپٹ راج کو الٹ سکتے ہیں۔مگر کیا کریں کہ سرمایہ داری کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ آدمی میں روپوں پیسوں کے جمع کرنے کا شوق کبھی کم نہیں ہوتا۔جس کے پاس لاکھ ہیں وہ دو لاکھ کمانا چاہتا ہے جس کے پاس دس ہیں وہ بیس حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس سیلاب نے یہ سبق بھی سکھایا ہے کہ کچھ کام نہیں آنے والا ہے۔اگر لالچ سے کام لو گے تو ایک دن جمع کیا ہوا سارا مال و اسباب بمعہ کھیت کھلیان مال مویشی دریا برد ہو سکتا ہے۔کیا کیا مکان اور ہوٹل تھے اور اب نہ رہے تاریخ کے بڑے سیلاب نے ہر چیز میں پانی ڈال دیا اور باقی کا ساتھ لے گیا۔گرانی کادور او راس پر مزید گراں تر صورتِ حال اور پھر  زیادہ سے زیادہ کمائی کے شوق نے اس ملک کی معاشرت کاحلیہ بگاڑکر رکھ دیا ہے۔میں سچ کہتا ہوں اگر مصنوعی مہنگائی کا ماحول نہ ہو  تو اس ملک میں ہر سُو خوشحالی ہوگی۔ سیلاب کے بعد گرانی کے اس دور میں بازار سے پیاز غائب ہے جو جس قدر بڑا شہر ہے وہا ں اتنی زیادہ مہنگائی ہے۔چکن کی خرید کہاں پہنچ گئی ہے۔گوشت کہاں چلا گیا ہے۔پھر اگر یہ چیزیں خرید نہیں سکتے تو سبزیا ں خریدیں گے مگر سبزی کے نرخ بھی تو عام آدمی کی پہنچ میں نہیں رہے۔اگر کچھ کھانے کونہ ہو تو ٹماٹروں کی چٹنی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔مگر یہ بھی تو مشکل ہوا ہے۔ٹماٹر تو دو ڈھائی سو روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں اور سیلابی صورتِ حال سے آنے والے کچھ دنوں میں سبزیوں کی کمی سے مزید مہنگے ہو جائیں گے۔ کون سی چیز سستی ہے۔سبزی کی دکان پرکھڑے ہو کر جس سبزی کانرخ پوچھوتو سن کر ان سنی کر دو۔چکن والے خود مرغیاں نہیں لارہے۔ ان کو جب آگے سے مال مہنگا ملتا ہے تو کیسے سستا بیچیں۔مرغیاں لائیں گے مگر حبس اور گرمی کی یا بیماریوں کی وجہ سے چھوٹے دکاندار کے پاس ایک مرغی بھی اندر اندر مر گئی تو ان کا منافع گیا۔ پھر ایک تو نہیں مرتی کسی کے پاس دو اور کسی کے پاس تین مرغیاں مر جائیں تو وہ کمائے گا کیا۔سو اس نے سبزیاں بیچنا ہیں۔ وہ مرغیاں لانے کا تکلف ترک کر دے گا۔آلو نے کچھ نہ کچھ ماحول کو سازگار رکھا ہوا ہے مگر آلو ہی صرف ابال کر تو نہیں کھائے جا سکتے۔ان کے لئے جہاں خاشاک ضروری وہاں سلینڈر میں گیس بھی  ہو کیونکہ سوئی گیس کا چلن تو پائپوں میں کم دیکھنے کو ملتاہے۔پھرآلو پکانے کے لئے اگرآگ کا بندوبست ہو تو گھی کہاں سے آئے گا جو آئے روز عام آدمی کے لئے اتنا گراں ہے کہ کچھ نہ پوچھو۔اب پاؤ کے گھی کے پیکٹ سے بھی آٹھ افراد کی فیملی میں ہنڈیا چولھے پر کیسے چڑھے گی۔صبح کو پراٹھے پکاکر ناشتے میں کھانا تو اب خواب و خیال ہوا۔کیونکہ پراٹھوں پر تو بہت سا گھی لگتا ہے۔روکھی سوکھی کھانا اور وقت گزارنا ہے مگر وہ روکھی سوکھی ملے تو سہی۔