دوست دشمن




پاک چین دوستی کئی ممالک کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے بالخصوص ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کے آغاز سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ چین سے اپنی قربت میں کمی لائے۔ اِس صورتحال میں پاکستان کا ردعمل نپا تلا اور زیادہ تر مصلحت آمیز خاموشی پر مبنی ہے اور سفارتی انداز یہی ہوتا ہے کہ کوئی ملک اپنے مفادات کی وضاحت کئے بغیر محتاط لب و لہجہ اختیار کرے۔ رواں ہفتے امریکی وزارت ِخارجہ کے سینئر مشیر نے پاکستان اور چین کے ساتھ دوسرے ممالک کے تعلقات پر بات کی ہے اور اِس ایک نکتے پر بطور خاص زور دیا ہے کہ پاکستان اپنے دوست کا ’انتخاب‘ کرے۔ اگرچہ بات گھما پھرا کر کی گئی ہے لیکن مطلب واضح ہے۔ مشیر خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”امریکہ پاکستان سے یہ (کبھی) نہیں کہے گا کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے لیکن امریکہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی چین دوستی سے پریشان ہے“ یقینا پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات اور بالخصوص چین دوستی کو قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہی سب سے نمایاں پہلو ہے کہ اِس نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر خزاں نہیں آنے دی‘ ایک ایسی دنیا جس میں صرف ایک عالمی طاقت وجود رکھتی ہے اور روس امریکہ کی سرد جنگ ختم ہونے کے بعد اِس بات کی امید پیدا ہوئی تھی کہ اب ’سپر پاور مخالفت یا دشمنی‘ ماضی کی بات بن جائے گی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے جیسے ہی چین نئی سپر پاور بنا‘ ایک بار پھر سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے لئے اس پیش رفت میں چیلنج (مشکل) موجود ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر پاکستان چین کے قریب ہے جبکہ معاشی اور سیاسی طور پر اس کے امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ اگرچہ چین نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی چین کی قیادت پاک امریکہ تعلقات کی وجہ سے ’عدم تحفظ‘ کا شکار دکھائی دیتی ہے لیکن امریکہ براہ راست اور کبھی اشارے کنائیوں میں پاکستان اور چین کے تعلقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین سے قربت رکھنے والے ہر ملک کے بارے میں امریکہ کی رائے یہی ہے کہ اُسے فاصلہ رکھنا چاہئے۔اصولی طور پر پاکستان کو اِس مشکل میں نہیں ڈالنا چاہئے کہ اِسے امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔ چین پاکستان کا ہمسایہ ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اِسے ممالک سے دوستی کی بنیاد پر استوار کرنا چاہئے خارجہ تعلقات میں تنوع بہتر ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کا کسی دوسرے کے اندرونی معاملات یا خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اثر و رسوخ یا مداخلت کبھی بھی سود مند نہیں ہوتی۔ایک ایسی صورتحال میں جبکہ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) جیسا چیلنج درپیش ہے تو اِس موقع پر ممالک کے درمیان سیاسی جھگڑے نہیں ہونے چاہیئں اور نہ یہ وقت اِس بحث کے لئے مناسب ہے کہ پاکستان کو چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ قدرتی آفات میں گھری دنیا میں دوست اور دشمن کے انتخاب کا سوال نہیں رہا بلکہ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے کتنے ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں۔ وقت ہے کہ انسانی ترقی اور بہبود پر توجہ دی جائے اور ممالک اپنے کاروباری و تجارتی مفادات سے بلند ہو کر کرہئ ارض کے مستقبل بارے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ جہاں تک پاک چین تعلقات کی بات ہے تو پاکستان کو اپنے خارجہ تعلقات متنوع بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ علاقائی تجارت دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ اہداف اُسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں بہتر کاروباری و پیداواری صلاحیت موجود ہو۔ اگر ممالک کے درمیان تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جائے تو اِس سے ایک دوسرے کے بارے میں سوچ بدل سکتی ہے۔