سارا شہر نابینا 

ہمارے ہاں تو شہر میں جو تعمیرات ہو رہی ہیں وہ دائیں بائیں نہیں ہو رہیں تاکہ شہر پھیل جائے اور خالی زمین کی زیادہ سے زیادہ گنجائش نکل آئے سرکاری دفتروں کی نئی عمارتیں اکادکا ہیں جو شہر سے باہر منتقل کر دی گئی ہیں لیکن باقی تو وہیں موجود ہیں‘جس کی وجہ سے شہری انتظام بدحالی کا شکار ہے۔سنٹرل جیل کو خیبر بازار سے اٹھا کر جلو زئی پبی کے قریب  منتقل کرنے کی ٹھانی گئی تھی مگر یہ بھی نہ ہوا عمارتیں اگر کہیں اور ہیں تو ان پانچ منزلہ عمارتوں کے اوپر چھٹی منزل ڈال دی جاتی ہے‘سب عمارتیں شہر ہی میں واقع ہیں‘شہر کی چاردیواری کے باہر کوئی جانا نہیں چاہتا‘سب اسی حلوائی کی دکان کے مٹھائی کے شیرے سے چمٹے ہوئے ہیں اس میں سرکاری بندوں کو ابتداء کرنا پڑے گی۔وہ اگر اپنے دفاتر اٹھا کر شہر سے باہر کھلی فضا میں منتقل کر دیں تو باقی کے پرائیویٹ لوگ بھی ان کی پیروی کریں گے کیونکہ جو سرکاری دفاتر روزمرہ کی رش میں گھرے ہوتے ہیں اس بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے دیگر ضرورت کی دکانیں اور ٹھیلے بھی ان دفاتر کے ساتھ شہر سے باہر کی فضا میں منتقل ہو جائیں گے ہمارے ہاں تعمیرات نیچے سے اوپر کو ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے شہر عمارتیں بن رہا ہے پھر ان عمارات کی وجہ سے ہوا بند ہو جاتی ہے اور حبس کا عمل ہوتاہے‘تپش اور آبادی کے زیادہ ہونے سے شہرکی اندرونی فضا روزبروز زہر آلود ہوئی جاتی ہے خواہ جو ہیں سب اسی شہر کے اندر سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ دفتروں کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کا رش بھی زیادہ ہوتا ہے اور شہریوں کی آمد و رفت کے کارن شہر کی سڑکیں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔پھر یہاں سب سے بڑا مسئلہ جو اس تحریر میں ڈسکس کرنا ہے وہ پارکنگ ہے۔جہاں نئی عمارت کے بنا نے کو زمین کی گنجائش نہ ہو وہاں بھلا شہریوں کی ان گنت اور بے شمار گاڑیاں پارک کرنے کو خالی زمین کہاں سے دستیاب ہوگی  پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔سنٹرل جیل کے باہر پٹرول پمپ کے پاس سڑک کے اوپرموٹرسائیکلیں پارک ہوں گی‘کسی سرکاری دفترکے باہر گاڑی نہیں کھڑی کرنا  دور کہیں جا کر کھڑی کریں گے او روہاں سے پیدل آئیں گے اور دفتر کی عمارت میں داخل ہوں گے۔ کیونکہ سرکاری مین گیٹ پر سکیورٹی والا وہاں بائیک نہیں چھوڑتا۔آپ چاہیں گے میرا موٹر سائیکل یہیں دفتر کے گیٹ کے باہر میرے سینے تلے کھڑا ہو مگر اس دوران میں آپ کاسکیورٹی والے سے مکالمہ ہوگا۔حالانکہ سرکاری عملہ جو اس عمارت میں کام کرتا ہے ان کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں عمارت کے اندر جا کر پارک کی جاتی ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی دفتر کے باہر کوئی گاڑی اور کوئی ایک موٹر سائیکل ہی کیوں نہ ہو اس دفتر کیلئے بہت بڑی تھریٹ ہے‘ ان مصیبتوں سے خدا محفوظ رکھے مگر احتیاط اچھی شئے ہے۔کسی کو مین گیٹ پر گاڑی پارک کرنے سے روکا جائے تو اس کو برانہیں منانا چاہئے کیونکہ یہ سب کچھ امن امان قائم رکھنے کیلئے ہوتا ہے مگر اس بڑھتی ہوئی آبادی اور عمارتوں کی بہتات میں گاڑی پارک کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔گاڑیاں تو آبادی کو دیکھ کر اور سڑکوں کے فاصلوں کاناپ کر کے نہیں تقسیم کی گئیں وہ تو بس بینکوں میں ارزاں قسطوں پر ہر ایک کو مہیاکر دی ہیں کچہری میں پارکنگ کا انتظام ٹھیک نہیں۔لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے تہہ خانوں میں گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں او رباقی ماندہ ہسپتال کے اوپر مین گیٹ کی سڑک پر ٹھیکیداروں کے پاس جمع کروائی جاتی ہیں  یہاں پشاور کے شادی ہالوں میں سے بعض کے اندر گاڑیاں پارک کرنے کیلئے تہہ خانے موجودہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جاننے والوں کیلئے اوپر ہی دفاتر اور شادی ہال کے مرکزی دروازے کے باہر اس کی گاڑی کو پارک ہونے کیلئے کھلی اجازت ہوتی ہے‘گاڑی پارک کرنا یہاں بہت بڑامسئلہ ہے‘سکون کی زندگی تو اس شہر کی آنکھوں میں سے بینائی سمجھ کر جیسے چوس لی گئی ہے‘جس کا جو جی مانتا ہے ویسا کرتا ہے۔شہر کے امن وسکون کو گروی رکھ دیا گیاہے‘ جہاں گاڑی کے پارک کرنے کی جگہ نہیں وہاں بھی اس عمارت کے مالکان نے پارکنگ کا کام ٹھیکیداروں کو حوالے کر دیا ہے۔ کیوں کہ ان سے پارکنگ کا مہینہ وار کرایہ وصول کرتے ہیں‘ یہ آمدن کا اچھا خاصا ذریعہ ہے۔